وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۵۶)(سورۃ النور)
اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور رسول کی فرمانبرداری کرو، تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔(۵۶)(آسان ترجمۃ القران)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلَاةُ وَ مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الْوُضُوءُ(ترمذی : ۴/كتاب الطهارة)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز جنت کی کنجی ہے، اور نماز کی کنجی وضو ہے“۔
آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،
روزہ کی حالت میں گلوکوز چڑھانا گلوکوز چڑھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، البتہ چوں کہ یہ ایک درجہ میں انسان کی غذائی ضرورت کو بھی پوری کرتا ہے، اس لیے بلا عذر گلوکوز چڑھانا مکروہ ہے۔(اہم مسائل/ج:۱/ص:۱۰۲)