آیۃ القران

وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ۠(۱۴)(سورۃ النساء)

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کو ایسا عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔(۱۴)(آسان ترجمۃ القران)

عبقری ماہ

حدیث الرسول ﷺ

أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ(مسلم شریف:۲۵۵۶)

محمد بن جبیر بن مطعم نے خبر دی کہ ان کے والد نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔‘‘

Download Videos

قانون توڑنا جائز نہیں

آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱؁ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،

Naats

اہم مسئلہ

مغرب اور وتر میں قصر نہیں بعض لوگ سفر شرعی (جس کی مسافت تقریباً ساڑھے ستتر کلومیٹر ہے ) میں نکلتے ہیں، تو یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب اور وتر میں بھی قصر ہے ، یعنی ان کی بھی دو رکعت ہی پڑھی جائے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے، مغرب اور وتر کی نماز دوران سفر تین تین رکعات ہی ہیں ، ان میں کوئی قصر نہیں۔(اہم مسائل/ج:۷/ص:۷۷)