اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓئُهُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۲۵۷)(سورۃ البقرہ)
اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انہیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے رکھوالے وہ شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیریوں میں لے جاتے ہیں، وہ سب آگ کے باسی ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔(۲۵۷)(آسان ترجمۃ القران)
أَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً(بُخاری شریف:۴۱۴۵)
حضرت ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض اشعار حکمت ہیں(حکمت سے بھرے ہوتے ہیں )(نصر الباری)
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ غیبت سے چنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ دوسرے کا ذکر کرو ہی نہیں نہ اچھائی سے ذکر کرو اور نہ برائی سے ذکر کرو کیونکہ یہ شیطان بڑا خبیث ہے۔ اس لئے کہ جب تم کسی کا ذکر اچھائی سے کرو گے کہ فلاں شخص بڑا اچھا آدمی ہے۔ اس کے اندر یہ اچھائی ہے تو دماغ میں یہ بات رہے گی کہ میں اس کی غیبت تو نہیں کر رہا بلکہ اچھائی سے اس کا ذکر کر رہا ہوں لیکن پھر یہ ہو گا کہ اس کی اچھائیاں بیان کرتے کرتے شیطان کوئی جملہ در میان میں ایسا ڈال دے گا جس سے وہ اچھائی برائی میں تبدیل ہو جائے گی مثلاً وہ کہے گا کہ فلاں شخص ہے تو بڑا اچھا آدمی .. مگر اس کے اندر فلاں خرابی ہے یہ لفظ ”مگر “ آکر سارا کام خراب کر دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ گفتگو کا رخ غیبت کی طرف منتقل ہو جائے گا اس لئے حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ دوسروں کا ذکر کرو ہی نہیں۔ نہ اچھائی سے نہ برائی سے اور اگر کسی کا ذکر اچھائی سے کر رہے ہو تو ذرا کمر کس کے بیٹھو تاکہ شیطان غلط راستے پر نہ ڈال دے۔
اگر کسی شخص نے کسی کی کوئی چیز ایک متعین وقت تک کے لیے عاریت پر لیا، اور اُس متعینہ وقت کے گزرنے پر اُس نے اُس کو واپس نہ کیا، یہاں تک کہ وہ چیز ضائع ہوگئی، تو عاریت پر لینے والے شخص پر اس کا ضمان لازم ہوگا۔ (اہم مسائل/ج:۷/ص:۲۱۷)