عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ ، وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا(بُخاری شریف:۶۰۶۴)
نبی ﷺ نے فرمایا : گمان باندھنے سے بچو، اس لئے کہ گمان سب سے بڑا جھوٹ ہے! اور ٹوہ مت لگاؤ ( خبریں معلوم مت کرو) اور کھود کرید مت کرو ( سراغ مت لگاؤ ) اور باہم دشمنی مت رکھو (ایک دوسرے سے نفرت مت کرو) اور آپس میں قطع تعلق مت کرو ( ایک دوسرے کے دشمن مت بن جاؤ) اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو (تحفۃ القاری)
Fans
Fans
Fans
Fans
admin | 12 April, 2024
admin | 12 April, 2024
admin | 30 March, 2024
admin | 30 March, 2024
وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۱)(سورۃ المنافقون)
اور جب کسی شخص کا معین وقت آجائے گا تو اللہ اسے ہرگز مہلت نہیں دے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (۱۱)(آسان ترجمۃ القران)
آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،
اوقات نماز کے علاوہ مسجد کے دروازہ پر تالا نہ لگانے کی صورت میں سامان مسجد کے چوری وضائع ہونے کا اندیشہ ہو، تو تالا لگا نا جائز ہوگا۔(اہم مسائل/ج:۱/ص:۲۴۸)