ماہنامہ ارمغان ولی اللہ (اپریل)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ أَنَّهُ مَرَّ بِقَوْمٍ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ شَاةٌ مَصْلِيَّةٌ، فَدَعَوْهُ فَأَبٰى أَنْ يَأْكُلَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الدُّنْيَا وَلَمْ يَشْبَعْ مِنَ الْخُبْزِ الشَّعِيرِ‏ (بُخاری شریف :۵۴۱۴)

حضرت ابو ہریرہؓ ایک قوم کے پاس سے گزرے، ان کے سامنے بھنی ہوئی بکری تھی، انھوں نے ابو ہریرہؓ کو کھانے پر بلایا، آپ نے کھانے سے انکار کر دیا ( آپ کو دور نبوی یاد آ گیا ) پس فرمایا: نبی ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور آپ کو جَو کی روٹی پیٹ بھر کر نصیب نہیں ہوئی۔(تحفۃ القاری)

آیۃ القران

فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۱۱۲)(سورۃ ھود)

لہذا (اے پیغمبر!) جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے، اُس کے مطابق تم بھی سیدھے راستے پر ثابت قدم رہو، اور وہ لوگ بھی جو توبہ کر کے تمہارے ساتھ ہیں، اور حد سے آگے نہ نکلو۔ یقین رکھو کہ جو عمل بھی تم کرتے ہو، وہ اُسے پوری طرح دیکھتا ہے(۱۱۲)(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

عذاب ادنی عذاب اکبر کی یاددہانی کا ذریعہ

اللہ ﷻ کے عذاب دو ہیں اکبر اور ادنی۔ عذاب اکبر آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا ۔ اس کے مقابلہ میں عذاب ادنیٰ ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں ۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں ، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت ، المناک حادثے ، نقصانات ، ناکامیاں وغیرہ ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان ، زلزلے ، سیلاب ، وبائیں ، قحط ، فسادات ، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں ۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا ۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک حاکم و سلطان کی فرمانروائی کا احساس دلاتی ہیں ۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے ۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے ۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے ، اور نہ کسی جن ، یا روح ، یا دیوی اور دیوتا

Naats

اہم مسئلہ

رکعت پانے کیلئے دوڑ نامنع ہے، خواہ رکوع نہ ملے ، اس لئے کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جب نماز کیلئے جماعت کھڑی ہو تو تم دوڑتے ہوئے نہ آؤ ، اور اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ ، جتنی رکعتیں ملے ان کو پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اس کو بعد میں ادا کرلو۔ (اہم مسائل/ج:۱/ص: ۵۰)