آیۃ القران

وَلَوْ يُؤَاخِذُ ٱللَّهُ ٱلنَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَآبَّةٍۢ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَـْٔخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ(۶۱)(سورۃ النحل)

اور اگر اللہ لوگوں کو اُن کے ظلم کی وجہ سے (فوراً) اپنی پکڑ میں لیتا تو رُوئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ اُن کو ایک معین وقت تک مہلت دیتا ہے۔ پھر جب اُن کا وہ معین وقت آجائے گا تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکیں گے(۶۱)(آسان ترجمۃ القران)

ماہنامہ بچوں کا تنزیل (دسمبر)

حدیث الرسول ﷺ

وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنْ يَجْمَعَ اللَّهُّ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ سَيْفَيْنِ سَيْفًا مِنْهَا وَسَيْفًا مِنْ عَدُوِّهَا (رَوَاهُ أَبَوَدَاوُدَ)

حضرت عوف ابن مالک رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی اس امت کے خلاف دو تلواروں کو اکٹھا نہیں کرے گا، ایک تلوار تو خود مسلمانوں کی اور دوسری تلوار ان کے دشمنوں کی۔ (ابوداؤد) توضيح: "سيفين" یعنی بیک وقت اس امت پر دو تلواریں اکٹھی نہیں ہوں گی، اگر دشمن سے جنگ اور جہاد فی سبیل اللہ ہوگا تو آپس میں جنگ نہیں ہوگی ( ہاں اگر منافقین کی ایک جماعت کفار سے مل گئی تو پھر دو تلواریں جمع ہوں گی ) اور اگر دشمن سےجنگ اور جہاد نہیں ہوگا تو پھر آپس میں لڑیں گے (توضیحاتشرح مشکوۃ ج۸ص۱۱۶)

Download Videos

تحقیق المسائل

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔ اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔ جواب: یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منت

Naats

اہم مسئلہ

بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الٹا جوتا یا چپل اگر درست نہ کیا جائے تو اس سے کام بگڑ جاتا ہے، گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں، کام الٹے ہو جاتے ہیں وغیرہ، اس لئے جلد از جلد اس کو سیدھا کر دیا جائے ، یہ عقیدہ رکھنا سراسر غلط ہے، البتہ کسی بھی چیز کو وضع اصلی کے مطابق رکھنا دائرہ ادب و تہذیب میں داخل ہے۔(اہم مسائل/ج : ۲/ ص : ۳۳)