ماہنامہ ذوق و شوق کراچی(فروری)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ (ابو داؤد شریف/کتاب:کتاب الادب/ باب: فی حسن الخلق )

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے اُس شخص جیسا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے جو کہ تمام دن روزہ رکھے اور رات کو عبادت کرے۔(سنن ابو داؤد مترجم/ج:۳)

آیۃ القران

ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ (۱۶)(سورۃ المومنون)

پھر قیامت کے دن تمہیں یقینا دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ (۱۶)(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

عذاب ادنی عذاب اکبر کی یاددہانی کا ذریعہ

اللہ ﷻ کے عذاب دو ہیں اکبر اور ادنی۔ عذاب اکبر آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا ۔ اس کے مقابلہ میں عذاب ادنیٰ ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں ۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں ، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت ، المناک حادثے ، نقصانات ، ناکامیاں وغیرہ ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان ، زلزلے ، سیلاب ، وبائیں ، قحط ، فسادات ، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں ۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا ۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک حاکم و سلطان کی فرمانروائی کا احساس دلاتی ہیں ۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے ۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے ۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے ، اور نہ کسی جن ، یا روح ، یا دیوی اور دیوتا

Naats

اہم مسئلہ

تکبیرات انتقال کا مسنون وقت یہ ہے کہ جہاں سے انتقال شروع ہو، وہیں سے تکبیر بھی شروع ہو، اور جہاں انتقال ختم ہو وہیں تکبیر بھی ختم ہو ، اگر کسی رکن میں پہنچنے کے بعد بھی تکبیر انتقالی ختم نہ ہوئی، تو یہ عمل خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مکر وہ ہوگا۔ (اہم مسائل/ج:۱/ص:۴۶)