الٓرٰ۔ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ(۱)(سورۃ ابراہیم)
الر۔ (اے پیغمبر) یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آؤ، یعنی اس ذات کے راستے کی طرف جس کا اقتدار سب پر غالب ہے، (اور) جو ہر تعریف کا مستحق ہے۔(۱)(آسان ترجمۃ القران)
عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُ عَلَيْهِ بُرْدَيْنِ أَخْضَرَيْنِ (ابو داؤد:۴۰۶۵)
حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہرے رنگ کی دو چادریں تھیں۔(ابو داؤد مترجم)
آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،
نماز میں کوئی واجب ترک ہو جائے تو کیا کرے؟ نماز میں کوئی واجب ترک ہو گیا ہو اور سجدہ سہو نہ کیا گیا ہو یا جو نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہو وہ واجب الاعادہ ہے، مگر اعادہ کا یہ حکم وقت کے باقی رہنے تک ہی ہے، وقت کے نکل جانے پر اعادہ کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے، اب اس کی مکافات استغفار کے ذریعہ کی جائے گی لیکن اگر وقت نکل جانے کے بعد اعادہ کر لیا جائے تو افضل ہے۔(اہم مسائل/ج:۲/ص:۱۰۵)