آیۃ القران

اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۔(۳۸)(سورۃ الفاطر)

بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ بیشک وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو خوب جانتا ہے۔(۳۸)(آسان ترجمۃ القران)

معاملات کی صفائی

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَمِّرُوا الْآنِيَةَ ، وَأَجِيفُوا الْأَبْوَابَ ، وَأَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ ، فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا جَرَّتِ الْفَتِيلَةَ ، فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ الْبَيْتِ (بُخاری شریف : ۶۲۹۵)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: برتن کو ڈھانک دو، اور دروازوں کو بھیڑ دو، اور چراغوں کو بجھا دو، اس لئے کہ چھوٹا شرارتی (چوہا) کبھی بتّی گھسیٹتا ہے، پس گھر والوں کو جلا دیتا ہے(تحفۃ القاری)

Download Videos

اغلاط العوام

نمبر (۱) صبح کا ناشتا دستیاب ہے۔ تفصیل: ناشتا صبح ہی کو کیا جاتا ہے۔ رات کا ناشتا یا دوپہر کا ناشتا کوئی چیز نہیں، سو صرف درست یہی ہے کہ "ناشتا دستیاب ہے" نمبر (۲) جھوٹے الزامات تفصیل: کبھی آپ نے سچے الزامات سنے؟؟ نہیں؟؟ تو درست بھی "الزامات" ہی ہے. ناکہ جھوٹے الزامات۔ ضرب المثال: نمبر (۱) آدمی آدمی پر گرتا ہے۔ مطلب: بہت زیادہ بھیڑ، رش، ہجوم استعمال: اندرون شہر کا تو پوچھیے ہی مت جہاں آدمی آدمی پر گرتا ہے۔ ایسی جگہوں سے دل گھبراتا ہے. وغیرہ نمبر (۲) پیٹ سے پاؤں نکالنے لگے ہیں۔ مطلب: غلط یا نالائق حرکات کرنا۔ استعمال: اُدھر میاں ظہور کے بیٹے کو دیکھیے قد ابھی نکلا نہیں، پیٹ سے پاؤں نکالنے لگے ہیں۔ وغیرہ ذخیرہ الفاظ: نمبر (۱) تَجَاہلِ عَارِفَانہ معنی: جان بوجھ کر لاعلم بننا۔ استعمال: نفیسی صاحب بڑے جی دار آدمی ہیں۔ جہاں دیدہ ہیں مگر اپنے بیٹے کی بات پر تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ نمبر (۲) رَفِیعُ الْمَرتَبَت معنی: اونچے مرتبے والا، اونچی شان والا۔ استعمال: اپنے،علم، عمل اور عاجزی کی وجہ سے صوفی صاحب ایک رفیع المرتبت شخصیت ہیں۔

Naats

اہم مسئلہ

بسا اوقات بس یا ٹرین کے ذریعہ سفر میں کوئی آدمی ہمارے ساتھ سفر میں ہوتا ہے، اس کی منزل آنے پر وہ اترتا ہے، اور اس کا کوئی سامان وغیرہ ہمارے پاس رہ جاتا ہے، اور ہم اس کو نہ جانتے ہیں اور نہ ہمیں اس کا پتہ ہوتا ہے ، تو اس سامان کا حکم ہے، یہ ہے کہ جب تک یہ خیال ہو کہ وہ شخص سامان کی تلاش میں ہوگا ، اس وقت تک اسے تلاش کیا جائے ، اور جب ملنے سے مایوسی ہو جائے تو اسے صدقہ کر دیا جائے ، یا خود مستحق ہو تو اسے استعمال کرلے۔ (اہم مسائل/ج:۴/ص:۱۸۶)