میرے دادا جان

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاء - رَوَاهُ مُسلم (مشکوٰۃ المصابیح/کتاب النکاح)

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ بلا شبہ دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اور اللہ تعالیٰ نے تم کو اس میں خلیفہ بنایا ہے،اس لئے وہ دیکھتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ تم لوگ دنیا سے محتاط رہو اور عورتوں سے بھی محتاط رہو، کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں میں آیا تھا۔ (مسلم شریف)(الرفیق الفصیح)

آیۃ القران

وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۵۴)(سورۃ الزمر)

اور تم اپنے پروردگار سے لو لگاؤ، اور اس کے فرماں بردار بن جاؤ قبل اس کے کہ تمہارے پاس عذاب آپہنچے، پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی(۵۴)(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کڑوی کھیر کھاگئے

ایک مرتبہ حضرت مدنی کی کسی صاحب نے دعوت کی ، اور کھانے کے ساتھ دیگر اشیاء کے ساتھ تھوڑی سی کھیر بھی تیار کی ،جب حضرت مدنی نے اس کھیر کو کھایا تو بہت کڑوی تھی ۔ ممکن ہے مغالطہ سے ایلوا وغیرہ کوئی کڑوی چیز اس میں گر گئی ہو۔ حضرتِ مدنی نے اس خیال سے کہ میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس کا دل دکھے گا، اس سے کھیر کے کڑوا ہونے کا ذکر نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ کھیر کی دیگچی لے آؤ ۔وہ اس کو لے آیا ۔ آپ نے کھانے میں شریک ہونے والے۔ ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کی یہ تمام کھیر میرے حصہ کی ہے آپ حضرات میں سے کوئی نہ کھائے ۔ چناچہ آپ نے وہ تمام کھیر اس انداز سے کھالی کہ میزبان اور تمام رفقاء یہ سمجھتے رہے کہ کھیر بہت اچھی لگی،لیکن جب میزبان نے دیگچی میں لگی ہوئی تھوڑی سی کھیر تبرکاً کھائی تو معلوم ہوا کہ کھیر تو بہت کڑوی تھی میزبان اور تمام رفقاء کو نہایت تعجب ہوا اور اُن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس بات سے کہ حضرت نے میزبان کی دل آسائی کے لئے اور اسے دل شکنی سے بچانے کے لئے شدید تکلیف برداشت کی کہ نہایت کڑوی کھیر ساری کھاگئے اور کسی کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا۔۔۔ یہ تھے ہمارے اکابرین

Naats

اہم مسئلہ

لباس کے بارے میں شریعت کی تعلیمات بڑی معتدل ہیں ، شریعت نے کسی مخصوص لباس کو متعین نہیں کیا ، البتہ لباس کی حدود مقرر کی ہیں، جو لباس ان شرعی حدود میں ہوگا وہ لباس شرعی کہلائے گا ، وہ حدود یہ ہیں: نمبر (ا) : لباس اتنا چھوٹا اور باریک اور چست نہ ہو کہ وہ اعضاء ظاہر ہو جائیں جن کا چھپانا واجب ہے۔ نمبر (۲) : لباس ایسا نہ ہو جس میں کفار و فساق کے ساتھ مشابہت ہو۔ نمبر (۳) : لباس سے تکبر و تفاخر ، اسراف و تنعم مترشح نہ ہوتا ہو، ہاں اسراف و تنعم اور نمائش سے بچتے ہوئے اپنا دل خوش کرنے کے لیے قیمتی لباس پہننا جائز ہے۔ نمبر (۴) : مرد کی شلوار، تہبند اور پاجامہ ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔ نمبر (۵) : مرد کا لباس اصلی ریشم کا نہ ہو، کیوں کہ وہ حرام ہے۔ نمبر (۶) : مرد زنانہ اور عورتیں مردانہ لباس نہ پہنیں۔ نمبر (۷) : خالص سرخ رنگ کا لباس پہننا مردوں کے لیے مکروہ ہے ، البتہ کسی اور رنگ کی آمیزش ہو، یا سرخ دھاری دار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ (اہم مسائل/ج:۱/ص:۱۴۳)