آیۃ القران

وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵)(سورۃ الاعراف)

اور اپنے رب کا صبح و شام ذکر کیا کرو، اپنے دل میں بھی، عاجزی اور خوف کے (جذبات کے) ساتھ اور زبان سے بھی، آواز بہت بلند کیے بغیر ! اور ان لوگوں میں شامل نہ ہوجانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔(۲۰۵)(آسان ترجمۃ القران)

وسوسو اور شک سے نجات پائیے

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ، قَالَ: دَمِيَتْ إِصْبَعُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَشَاهِدِ، فَقَالَ: هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيتِ، وَفِي سَبِيلِ اللهِ مَا لَقِيتِ(کتاب الجہاد)

صحابی رسول حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان جنگوں میں سے کسی جنگ میں رسول اللہ ﷺ کی انگلی مبارک خون آلود ہو گئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو ایک انگلی ہے جو خون آلود ہو گئی ہے اور تو نے جو شدت اٹھائی ہے، وہ اللہ کی راہ میں اٹھائی ہے۔(تفہیم المسلم)

Download Videos

تحقیق المسائل

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔ اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔ جواب: یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منت

Naats

اہم مسئلہ

داڑھی رکھنا اسلامی و قومی شعار، تمام انبیاء کی سنت ، شرافت و بزرگی کی علامت اور چہروں کا جمال ہے، اس سے مردانہ شکل کی تکمیل ہوتی ہے، اور چھوٹے بڑے کے درمیان فرق ہوتا ہے ، لہذا ایک مشت داڑھی رکھنا واجب، اور ایک مشت تک پہنچنے سے پہلے منڈوانا، کاٹنا یا کٹوانا گناہِ کبیرہ ہے۔(اہم مسائل/ج:۱/ص:۱۴۷)