سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنْ الدَّجَّالِ حَدِيثًا مَا حَدَّثَهُ نَبِيٌّ قَوْمَهُ إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّهُ يَجِيءُ مَعَهُ مِثْلُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَالَّتِي يَقُولُ إِنَّهَا الْجَنَّةُ هِيَ النَّارُ وَإِنِّي أَنْذَرْتُكُمْ بِهِ كَمَا أَنْذَرَ بِهِ نُوحٌ قَوْمَهُ(مسلم شریف:۲۹۳۶)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں دجال کے بارے میں ایسی خبر نہ دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں دی۔ بے شک وہ کانا ہو گا اور وہ جنت اور دوزخ کی مثل لے کر آئے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا وہ جہنم ہو گی اور میں تمہیں اس سے اسی طرح ڈراتا ہوں جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا۔(تفہیم المسلم)
Fans
Fans
Fans
Fans
admin | 12 April, 2024
admin | 12 April, 2024
admin | 30 March, 2024
admin | 30 March, 2024
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹)(سورۃ النساء)
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔(۲۹)(سورۃ النساء) یعنی: اس کا سادہ مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح دوسرے کا مال ناحق طریقے سے کھانا حرام ہے کسی کی جان لینا اس سے زیادہ حرام ہے، دوسرے کی جان لینے کو اپنے آپ کو قتل کرنے سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ دوسرے کو قتل کرنا بالآخر اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے ؛ کیونکہ اس کے بدلے میں خود قاتل قتل ہوسکتا ہے، اور اگر یہاں قتل نہ بھی ہو تو آخرت میں اس کی جو سزا ملنی ہے وہ موت سے بھی بدتر ہوگی، اس طرح اس تعبیر سے خود کشی کی ممانعت بھی واضح ہوگئی، دوسرے کسی کا مال ناحق کھانے کے ساتھ یہ جملہ لانے سے اس طرف بھی اشارہ ممکن ہے کہ جب ناحق مال کھانے کا رواج معاشرے میں عام ہوجائے تو اس کا نتیجہ اجتماعی خود کشی کی صورت میں نکلتا ہے۔(آسان ترجمۃ القران)
ایک مرتبہ حضرت مدنی کی کسی صاحب نے دعوت کی ، اور کھانے کے ساتھ دیگر اشیاء کے ساتھ تھوڑی سی کھیر بھی تیار کی ،جب حضرت مدنی نے اس کھیر کو کھایا تو بہت کڑوی تھی ۔ ممکن ہے مغالطہ سے ایلوا وغیرہ کوئی کڑوی چیز اس میں گر گئی ہو۔ حضرتِ مدنی نے اس خیال سے کہ میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس کا دل دکھے گا، اس سے کھیر کے کڑوا ہونے کا ذکر نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ کھیر کی دیگچی لے آؤ ۔وہ اس کو لے آیا ۔ آپ نے کھانے میں شریک ہونے والے۔ ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کی یہ تمام کھیر میرے حصہ کی ہے آپ حضرات میں سے کوئی نہ کھائے ۔ چناچہ آپ نے وہ تمام کھیر اس انداز سے کھالی کہ میزبان اور تمام رفقاء یہ سمجھتے رہے کہ کھیر بہت اچھی لگی،لیکن جب میزبان نے دیگچی میں لگی ہوئی تھوڑی سی کھیر تبرکاً کھائی تو معلوم ہوا کہ کھیر تو بہت کڑوی تھی میزبان اور تمام رفقاء کو نہایت تعجب ہوا اور اُن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس بات سے کہ حضرت نے میزبان کی دل آسائی کے لئے اور اسے دل شکنی سے بچانے کے لئے شدید تکلیف برداشت کی کہ نہایت کڑوی کھیر ساری کھاگئے اور کسی کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا۔۔۔ یہ تھے ہمارے اکابرین
تکبیر تحریمہ کے بعد ارسال( ہاتھ چھوڑنا پھر باندھنا) کیسا ہے؟ بعض لوگ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو چھوڑ دیتے ہیں پھر باندھتے ہیں جبکہ افضل یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد ہاتھ چھوڑے بغیر باندھ لیں اور یہی قول مفتی بہ ہے۔