قَالَ أَنَسٌ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا. وَإِنَّ أَمِينَنَا، أَيَّتُهَا الْأُمَّةُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ(مسلم شریف: ۲۴۱۹)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” ہر امت کا کوئی ”امین“ ہوتا ہے اور ہمارا امین “ اے میری امت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن الجراح ہیں“(تفہیم المسلم)
Fans
Fans
Fans
Fans
admin | 12 April, 2024
admin | 12 April, 2024
admin | 30 March, 2024
admin | 30 March, 2024
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱)(سورۃ الاحزاب)
حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔(۲۱)(آسان ترجمۃ القران)
اگر کسی خیمہ پر لکھا ہو خیمۂ لیلیٰ لیکن اس میں جھانک کر دیکھا تو اندر کتا بندھا ہوا ہے تو اس خیمہ کی قدر نہ ہوگی بلکہ لوگ مذاق اُڑائیں گے۔ اسی طرح مولوی وہ ہے جو مولیٰ والا ہو اس کے خیمۂ محمل سے خوشبوئے مولیٰ ملنی چاہیے یعنی اس کی صحبت میں اللہ کی محبت کی خوشبو آنی چاہیے‘ اس کی صحبت سے اللہ کی محبت پیدا ہو اور دنیا کی محبت دل سے نکلے چنانچہ جو اللہ والے مولوی ہیں ان کی خوشبو سے ایک عالم مست ہوتا ہے ایسے ہی اللہ والے علماء سے دین پھیلا ہے اور ہمارے تمام اکابر اس کی مثال ہیں لیکن جو مولوی اللہ والوں سے مستغنی رہتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں مٹاتے اور عوام ان کو مولیٰ والا سمجھ کر ان کے پاس آتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ ان کے خیمہ میں تو حُبِّ دنیا اور حُبِّ جاہ کا کتا بندھا ہوا ہے اور مولیٰ ندارد‘ تو بہت مایوس ہوتے ہیں‘ آج کل اہلِ علم کی بے قدری اسی سبب سے ہے ورنہ جو علماء اہل اللہ کےصحبت یافتہ ہیں مخلوق آج بھی ان پر فدا ہے۔
مسجد میں جگہ روکنا کیسا ہے؟ مسجد میں کسی شخص کا اپنا رومال ، ٹوپی یا مصلی رکھ کر جگہ روک لینا مکروہ ہے، اور وہ شخص اس صورت میں اس جگہ کا مستحق نہ ہوگا، بلکہ مسجد میں پہلے پہنچ کر جو شخص جس جگہ بیٹھ جائے وہی اس کا حقدار ہے ، ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں کسی جگہ کچھ دیر عبادت کرے پھر کسی ضرورت سے تھوڑی دیر کے لیے جانا چاہے اور رومال وغیرہ رکھ کر جگہ روک لے تو یہ جائز ہے اور وہ اس جگہ کا حقدار ہو گا ۔(اہم مسائل/ج:۲/ص:۱۸۷)