عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةً وَ اللّٰهُ قَدِیْرٌ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷)(سورۃ الممتحنہ)
کچھ بعید نہیں ہے کہ اللہ تمہارے اور جن لوگوں سے تمہاری دشمنی ہے، ان کے درمیان دوستی پیدا کردے، اور اللہ بڑی قدرت والا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔ (۷)(آسان ترجمۃ القران)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍؓ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا(مسلم شریف/باب كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقً)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ بہترین اخلاق والے تھے “(تفہیم المسلم)
جرات کی بات ہے مگر میں تجربہ سے کہتا ہوں کہ علم دین شروع کرتے وقت اگر نیت عمل کی نہ بھی ہو تو پرواہ مت کرو، علم دن وہ چیز ہے کہ نیت کو بھی ٹھیک کر لے گا علم دین وہ چیز ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ اپنا اثر ضرور کرتا ہے اور اس شخص کو اپنا بنا لیتا ہے ایک بزرگ کا قول ہے وہ فرماتے ہیں تعلمنا لغیر اللہ فابی العلم الا ان یکون للہ۔ یعنی ہم نے علم پڑا تھا غیر اللہ کے لیے مگر علم نے خود ہی نہ مانا اور اللہ میاں ہی کا ہو کر رہا۔مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں خلوص نہ تھا مگر انتہا میں خلوص پیدا ہو ہی گیا اس واسطے میں کہتا ہوں کہ اگر عمل کی توفیق نہ بھی ہو تب بھی علم پڑھے جاؤ ان شاءاللہ ضرور عمل نصیب ہوگا۔میں کہتا ہوں کے علم عربی وہ علم ہے کہ ہر چیز کو اس سے انجلاء ہوتا ہے اخلاق بھی اس سے درست ہوتے ہیں جب آدمی ہمیشہ فقراء و اہل اللہ کے قصے اور حالات پڑھے گا تو کب تک اثر نہ ہوگا ہاں ! یہ خیال رکھو کہ معصیت کا بھی عزم مت کرو معصیت سے نورعلم مٹ جاتا ہے اگر خلوص نہ ہو تو پرواہ نہ کرو لیکن بالقصد معصیت کے پیچھے بھی مت پڑھو اور بے باک مت ہو جاؤ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ سے اپنے حافظہ کی شکایت کی انہوں نے جو جواب دیا اس کو اس طرح نقل فرماتے ہیں شکوت الی وکیع سوء حفظی فاوصانی الی ترک المعاصی فان العلم فضل من الہ وفضل اللہ لا یعطی لعاصی یعنی میں نےاپنے استاد وکیع سے سوء حافظ کی شکایت کی انہوں نے مجھ کو نصیحت کی کے گناہوں کو چھوڑ دو کیونکہ علم اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل گنہگار کو نصیب نہیں ہوتا
اگر امام کسی رکعت میں کھڑا ہونے کے بجائے سہوا بیٹھ جائے ، یا اس کے برعکس ہو، تو اس کو یاد دلانا چاہیے، اور یاد کے لیے سبحان اللہ کہنا چاہیے لیکن اگر امام دورکعت پر بیٹھنے کے بجائے کھڑا ہو گیا، تو اب اس کو یاد نہ دلائے۔(اہم مسائل/ج:۷/ص:۶۶)