آیۃ القران

اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳)(سورۃ النساء)

بیشک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے۔(۱۰۳)(آسان ترجمۃ القران)

કૌટુબિક જાઘડાઓના કારણો અને તેમના ઉકેલ

حدیث الرسول ﷺ

‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِمَّا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ خَيْرٌ فَالْحِجَامَةُ (ابو داؤد : ۳۸۵۷)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم لوگوں کی تمام دواؤں میں کوئی دوا بہتر ہے تو وہ حجامت یعنی سینگی لگوانا ہے۔(ابو داؤد شریف مترجم)

Download Videos

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کڑوی کھیر کھاگئے

ایک مرتبہ حضرت مدنی کی کسی صاحب نے دعوت کی ، اور کھانے کے ساتھ دیگر اشیاء کے ساتھ تھوڑی سی کھیر بھی تیار کی ،جب حضرت مدنی نے اس کھیر کو کھایا تو بہت کڑوی تھی ۔ ممکن ہے مغالطہ سے ایلوا وغیرہ کوئی کڑوی چیز اس میں گر گئی ہو۔ حضرتِ مدنی نے اس خیال سے کہ میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس کا دل دکھے گا، اس سے کھیر کے کڑوا ہونے کا ذکر نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ کھیر کی دیگچی لے آؤ ۔وہ اس کو لے آیا ۔ آپ نے کھانے میں شریک ہونے والے۔ ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کی یہ تمام کھیر میرے حصہ کی ہے آپ حضرات میں سے کوئی نہ کھائے ۔ چناچہ آپ نے وہ تمام کھیر اس انداز سے کھالی کہ میزبان اور تمام رفقاء یہ سمجھتے رہے کہ کھیر بہت اچھی لگی،لیکن جب میزبان نے دیگچی میں لگی ہوئی تھوڑی سی کھیر تبرکاً کھائی تو معلوم ہوا کہ کھیر تو بہت کڑوی تھی میزبان اور تمام رفقاء کو نہایت تعجب ہوا اور اُن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس بات سے کہ حضرت نے میزبان کی دل آسائی کے لئے اور اسے دل شکنی سے بچانے کے لئے شدید تکلیف برداشت کی کہ نہایت کڑوی کھیر ساری کھاگئے اور کسی کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا۔۔۔ یہ تھے ہمارے اکابرین

Naats

اہم مسئلہ

جماعت کے وقت سنن میں مشغول ہونا جب جماعت کھڑی ہو تو سنتوں میں مشغول ہونا درست نہیں، کیوں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ”جب جماعت کھڑی ہو تو فرض کے علاوہ دوسری نماز نہیں،“ ہاں اگر سنت فجر کی ادائیگی میں فجر کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو، یعنی اس کو امام کے ساتھ ایک رکعت مل سکتی ہے، یا امام کو قعدہ میں پاسکتا ہے، تو سنت فجر ادا کرلے۔(اہم مسائل/ج:۱/ص:۳۳)