لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں آلات کے ساتھ نہیں

آج میں نے اپنے والد کے ساتھ بینک میں ایک گھنٹہ گزارا تھا، کیونکہ انہیں کچھ رقم منتقل کرنی تھی۔ میں اپنے آپ کو روک نہیں سکا اور پوچھا۔ ''بابا ہم آپ کی انٹرنیٹ بینکنگ کو فعال کیوں نہیں کر دیتے؟'' ’’میں ایسا کیوں کروں گا ؟انہوں نے پوچھا۔ ٹھیک ہے، پھر آپ کو منتقلی جیسی چیزوں کے لیے یہاں ایک گھنٹہ بھی نہیں گزارنا پڑے گا۔ آپ اپنی خریداری آن لائن بھی کر سکتے ہیں سب کچھ اتنا آسان ہو جائے گا!'' میں انھیں نیٹ بینکنگ کی دنیا میں شروعات کے بارے میں بتاتے ہوۓ پر جوش تھا۔ بابا نے پوچھا، ''اگر میں ایسا کروں تو مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنا پڑے گا؟ ہاں ہاں''! میں نے کہا۔ میں نے انھیں بتایا کہ سودا سلف بھی اب دروازے پر کیسے ڈیلیور کیا جا سکتا ہے! لیکن ان کے جواب نے میری زبان بند کر دی۔ انہوں نے کہا ''جب سے میں آج اس بینک میں داخل ہوا ہوں، میں اپنے چار دوستوں سے ملا ہوں، میں نے کچھ دیر عملے سے بات چیت کی ہے جو اب تک مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ میں اکیلا ہوں یہ وہ رفاقت ہے جس کی مجھے ضرورت ہے میں تیار ہو کر بینک آنا پسند کرتا ہوں میرے پاس کافی وقت ہے۔ انہوں نے کہا دو سال پہلے میں بیمار ہوا، دکان کا مالک جس سے میں پھل خریدتا ہوں، مجھے ملنے آیا اور میرے پلنگ کے پاس بیٹھ کر رونے لگا۔ جب تمہاری ماں کچھ دن پہلے صبح کی سیر کے دوران گر گئی تھی ہمارے مقامی گروسر نے اسے دیکھا اور فوری طور پر گھر رابطہ کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں کہاں رہتا ہوں اگر سب کچھ آن لائن ہو جائے تو کیا مجھے وہ 'انسانی' ٹچ ملے گا؟ مجھے صرف اپنے فون کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور کیوں کیا جائے؟ یہ رشتوں کے بندھن بناتا ہے۔ کیا آن لائن ایپس بھی یہ سب فراہم کرتی ہیں ؟ ٹیکنالوجی زندگی نہیں ہے۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

گھی چور ملازم

گھی چور ملازم

ایک بندہ کریانے کی ایک دکان پر ملازم تھا. وہ کسی نہ کسی بہانے دکان سے کچھ نہ کچھ چوری کرتا رہتا تھا. دکان کا مالک بڑا ہی خوش اخلاق اور امانتدار انسان تھا. وقت گزرتا گیا اور دس بارہ سال گزر گئے. اللہ نے مالک کو خوب برکت دی اور اس کی دکان شہر کی سب سے بڑی دکان بن گئی. روزانہ لاکھوں کی آمدن ہونے لگی. ایک دن اس ملازم کے گھر سے ٹفن میں کھانا آیا ہوا تھا. ملازم نے چوری سے ٹفن میں دیسی گھی ڈال دیا. اللہ کی شان کہ واپس لے جاتے ہوئے اس کے بچے سے ٹفن نیچے گر کر کھل گیا اور اس کی چوری پکڑی گئی. مالک کا بیٹا غصہ میں آ گیا اور ملازم کو برا بھلا کہنے لگا مگر مالک نے اپنے بیٹے کو سختی سے روک دیا اور کہا: " بیٹا! اسے چھوڑ دو. تمہیں آج پتہ چلا ہے کہ یہ چوری کرتا ہے مگر مجھے پچھلے بارہ سال سے معلوم ہے. اس کے باوجود میں نے اسے کبھی سمجھانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا. بس اتنا سوچو کہ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی روزانہ کی چوری کے باوجود بھی ہم کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور یہ بارہ سال چوری کرکے بھی آج تک ملازم کا ملازم ہی ہے." اسی طرح امانتدار انسان اپنی ایمانداری اور محنت کے ذریعے کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے مگر دھوکہ باز اور چور گندگی میں ہی پڑا رہ جاتا ہے. منقول!