ہونے والے شوہر کا امتحان: ایک ایمان افروز واقعہ

میرے بھائی نے مجھے اپنے ایک دوست سے سنا ہوا سچا واقعہ سنایا جو اپنی بہنوں کے لیے بطور نصیحت پیش کررہا ہوں. میرے ایک عزیز پیرس میں خاصے عرصے سے مقیم ہیں . برسر روز گار ہیں، مگر ابھی تک کسی وجہ سے اپنا گھر نہیں بسا سکے، ایک دن میرے پاس آئے تو گھر بسانے کا قصہ چھیڑ دیا۔ وہ کسی مناسب رشتے کی تلاش میں تھے۔ عربی کے الفاظ میں کسی ’’بنت الحلال‘‘ کی تلاش کے لیے مجھ سے بھی کہا ۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، مختلف لوگ جن کی بچیاں شادی کی عمرکو پہنچ چکی ہیں، کہتے رہتے ہیں، کسی نہ کسی جگہ مناسب رشتہ دیکھ کر بات چلا دیں گے؛چنانچہ ایک جگہ میں نے بات شروع کی ۔ لڑکی کے والد مراکش کے رہنے والے ہیں اور عرصۂ دراز سے یہاں مقیم ہیں، اولاد یہیں پیدا ہوئی، لہٰذا فرنچ زبان عربی پر حاوی ہوچکی ہے۔ والد اور والدہ سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ہمیں توکوئی اعتراض نہیں رشتہ مناسب ہے، لڑکی کی عمر بھی 20,21سال ہو چکی ہے۔ وہ خود بھی سمجھدار اور پڑھی لکھی ہے، اس سے مشورہ کرکے بتاتے ہیں۔ بات آگے بڑھتی گئی، ہمیں قوی یقین تھا کہ سمبندھ ضرور ہو جائے گا کیونکہ رشتہ ہم پلہ تھا۔ چنانچہ وہ دن بھی آیا کہ فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ لڑکا لڑکی کو دیکھ لے اور دونوں آپس میں گفتگو بھی کرلیں تاکہ بات طے ہو سکے ۔ اتفاق کی بات کہ ملاقات کے لیے ریلوے اسٹیشن کا انتخاب ہوا، چنانچہ لڑکا اور لڑکی ذرا دور ہٹ کر بیٹھ گئے۔ لڑکی کی والدہ، والد، میری اہلیہ اور میں ان کو دور سے دیکھ رہے تھے کہ دفعتاً لڑکی نے اپنے پرس سے کچھ اوراق نکالے اور لڑکے کے سامنے رکھ دیے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے لڑکی کی والدہ سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگی کہ دراصل اس کی بیٹی نے اپنے ہونے والے شوہر سے اس کی نجی زندگی کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے ایک سوال نامہ مرتب کیا ہے۔ اس کے جوابات کی روشنی میں وہ اسے اپنا شریک حیات بنانے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی ۔ سوالات عربی اور فرنچ دونوں زبانوں میں تھے، مگر زیادہ فرنچ زبان اختیار کی گئی تھی۔ میرا دوست اس زبان سے زیادہ واقف نہیں تھا، اس نے دور سے مجھے اشارہ کرکے اپنے پاس بلایا تاکہ میں ان سوالات کا جواب لکھنے میں اس کی مدد کر سکوں ۔ وہ سوالات تین صفحات پر مشتمل تھے۔ پہلے صفحہ پر اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوالات تھے، مثلاً نام، ولدیت، ایڈریس، قد، وزن، پیشہ، تعلیم، کاروبار، نوکری، گھر اپنا ہے یا پرایا، آپ کتنے گھنٹے ڈیوٹی دیتے اور کتنی تنخواہ لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ عام سے سوالات تھے جن کا جواب میرے دوست نے لکھ لیا تھا، مگر اصلی سوالات اگلے دو صفحات میں تھے۔ ان میں سوالات کچھ اس قسم کے تھے کہ آپ کا اسلام سے اور مذہب سے کس حد تک تعلق ہے؟ پانچوں نمازیں آپ ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اسلام کی راہ میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ قرآن پاک کا کتنا حصہ زبانی یاد ہے۔ مہینے میں کتنی مرتبہ آپ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں؟ حدیث کی کون سی کتاب آپ پڑھ چکے ہیں اورکتنی احادیث آپ کو یاد ہیں؟ حقوق الزوجین کے بارے میں ایک صفحہ لکھیں سیرت کی کون سی کتاب آپ کے زیر مطالعہ ہے؟ آپ نے کسی حلقۂ درس میں کبھی شرکت کی ہے، اگر کی ہے تو کون سا عالم دین تھا، اور آپ نے اس سے کون سی کتاب پڑھی ہے؟ عامر عقاد کہہ رہا تھا: میں اس لڑکی کے سوال پڑھتا چلا جا رہا تھا اور جہانِ حیرت میں گم ہوتا جا رہا تھا کہ اس ماحول میں بھی اسلام سے اس حد تک محبت رکھنے والی بچیاں موجود ہیں۔ ایک سوال یہ بھی تھا کیا آپ اولاد کے خواہش مند ہیں؟ لڑکیاں چاہتے ہیں یا لڑکے؟ شادی کے بعد جو پہلا بچہ ہو گا اس کا نام کیا رکھیں گے؟ آپ اپنی شریک حیات میں کس قسم کی خوبیاں دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ وہ سوال نامہ کیا تھا؟ حقیقت میں اس کی زندگی اور طرز فکر کے بارے میں مکمل کھوج تھا ان سوالات کے جوابات ملنے اور پڑھنے کے بعد بلاشبہ ایک شخص کی زندگی کا عکس پوری طرح نظر آجاتا ہے. تو پھر آپ کے دوست نے ان تمام سوالوں کا صحیح جواب لکھا؟ میں نے پوچھا۔ دوست بولا . ’کیوں نہیں؟ اس نے سارے جوابات مفصل دینے کی کوشش کی۔ اچھا تو پھر یہ شادی انجام پذیر ہوئی یا نہیں؟‘‘ ’’نہیں بھائی! وہ رشتہ طے نہ ہو سکا. لڑکی ان جوابات سے مطمئن نہیں ہوئی اور اس نے اپنے والدین سے کہہ دیا کہ مجھے ایسا شوہر نہیں چاہیے جو اپنے رب کے ساتھ مخلص نہیں . جو اپنے خالق کا وفادار نہیں وہ کل کلاں میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟‘‘ اور میں سوچ رہا تھا کہ واقعتا اگر میری بہنیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ہونے والے شوہر کی اپنے رب سے وفاداری اور تعلق کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں تو پھر ان کی آئندہ زندگی یقینا بے حد خوشگوار گزرے گی . _____📝📝📝_____ منقول ۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

بادشاہ اور سیب فروش

بادشاہ اور سیب فروش

ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا ہوا تھا. جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا: *"سیب خریدیں! سیب!"* *حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے بازار جا رہا ہے۔حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا: خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لاؤ۔* *وزیر نے خزانے سے 5 سونے کے سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا: یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا: سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *محل کےمنتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا:* *یہ 2 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا:* *یہ 1 سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لاؤ۔* *سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا:* *دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے. اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ کو قید کر دوں۔* *سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا:* *میں نے غلطی کی ہے جناب !* *اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو !* *سپاہی نے سارے سیب لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم کو دے دیئے۔* *اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے منتظم کو دے دیئے اور کہا,* *کہ یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں۔* *افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کےمنتظم کو دیا، اس نے کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں۔* *محل کے منتظم نے آدھےسیب اپنے لیے رکھے اور آدھے وزیر کو دیے اور کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں۔* وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر اعلی کے پاس گیا اور کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں۔* *وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب لے کر حکمران کے پاس گیا اور کہا,* *کہ یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں۔* *حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔* *میرے ملک کے لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے۔* *اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی ہی چلی گئی۔* *فارسی ادب سے ماخوذ*