حکمت بھری باتیں

‏ایک بادشاہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو اچھی بات کہے گا اس کو چار سو دینار (سونے کے سکے) دیئے جائیں گے...!!!! ایک دن بادشاہ رعایا کی دیکھ بھال کرنے نکلا اس نے دیکھا ایک نوے سال کی بوڑھی عورت زیتون کے پودے لگا رہی ہے بادشاہ نے کہا تم پانچ دس سال میں مر جاؤ گی اور یہ درخت بیس سال بعد پھل دیں گے تو اتنی مشقت کرنے کا کیا  فائدہ؟ بوڑھی عورت نے جواباً کہا ہم نے جو پھل کھائے وہ ہمارے بڑوں نے لگائے تھے اور اب ہم لگا رہے ہیں تاکہ ہماری اولاد کھائے...!!!! بادشاہ کو اس بوڑھی عورت کی بات پسند آئی حکم دیا اس کو چار سو دینار دے دیئے جائیں...!!!! جب  بوڑھی عورت کو دینار دیئے گئے وہ مسکرانے لگی...!!!! بادشاہ نے پوچھا کیوں مسکرا رہی ہو؟؟؟ بوڑھی عورت نے کہا کہ زیتون کے درختوں نے بیس سال بعد پھل دینا تھا جبکہ مجھے میرا پھل ابھی مل گیا ہے...!!!! بادشاہ کو اس کی یہ بات بھی اچھی لگی اور حکم جاری کیا اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں...!!!! جب اس عورت کو مزید چار سو دینار دیئے گئے تو وہ پھر مسکرانے لگی...!!!! بادشاہ نے پوچھا اب کیوں مسکرائی؟؟؟ بوڑھی عورت نے کہا زیتون کا درخت پورے سال میں صرف ایک بار پھل دیتا ہے جبکہ میرے درخت نے دو بار پھل دے دیئے ہیں..!!!! بادشاہ نے پھر حکم دیا اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں یہ حکم دیتے ہی بادشاہ تیزی سے وہاں سے روانہ ہو گیا...!!!! وزیر نے کہا حضور آپ جلدی سے کیوں نکل آئے؟؟؟ بادشاہ نے کہا اگر میں مزید اس عورت کے پاس رہتا تو میرا سارا خزانہ خالی ہو جاتا مگر عورت کی حکمت بھری باتیں ختم نہ ہوتیں...!!!! اچھی بات دل موہ لیتی ہے، نرم رویہ دشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے حکمت بھرا جملہ بادشاہوں کو بھی قریب لے آتا ہے اچھی بات دنیا میں دوست بڑھاتی اور دشمن کم کرتی ہے اور آخرت میں ثواب کی کثرت کرتی ہے آپ مال و دولت سے سامان خرید سکتے ہیں مگر دِل کی خریداری صرف اچھی بات سے ہو سکتی ہے💯!!

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اسرائیل سے متعلق تین موقف

اسرائیل سے متعلق تین موقف

موجودہ دور میں اسرائیل سے متعلق تین موقف پائے جاتے ہیں : نمبر(۱) اسرائیل، امریکہ وغیرہ: ان کا موقف ہے کہ : بیت المقدس سمیت فلسطین کے جتنے حصے پر اسرائیل قابض ہے، وہ اسرائیل کا حصہ ہیں۔ جلا وطن کیے گئے فلسطینی جہاں کہیں جائیں، فلسطین میں اُن کی کوئی جگہ نہیں۔ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا۔ نمبر (۲) ترکی ، اردن ، مصر: وہ اسلامی ممالک، جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، اُن کا موقف یہ ہے کہ: ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ نے جو رقبہ اور حدود اسرائیل کے لیے طے کیا تھا، اسرائیل اُن کے اندر رہے، بیت المقدس اور باقی فلسطین کو آزاد کرے۔ وہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ نمبر (۳) پاکستان اور سعودیہ عرب وغیرہ: وہ ممالک جنھوں نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ : یہودی پورے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ختم کریں، اُن کے پاس یورپی ممالک کی شہریتیں موجود ہیں۔ وہ ۱۹۲۲ء میں اور اس کے بعد جہاں جہاں سے اُٹھ کر فلسطین آئے تھے، وہاں واپس جائیں۔ اور قضیہ فلسطین کا حل ۱۹۴۸ء کے بجائے ۱۹۱۷ء کی پوزیشن پر حل کیا جائے ۔ جب خلافت عثمانیہ کی عملداری تھی اور فلسطین کے اندر کسی یہودی کو مستقل رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ (ماہنامہ صفدر اکتوبر/ ص: ۱۰)