زندگی کا فلسفہ

صاحب مضمون :
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺷﺮﻁ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺭﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﯽ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﺎ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﺎﮔﺰﯾﺮ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﯾﺎ ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﻭﮦ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﺷﻮﺍﺭ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﻭﻗﺖ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺣﺴﺎﺳﺎﺕ ﺑﮭﯽ اﮔﺮ ﺗﻢ ﺗﻨﮩﺎﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺷﮑﻦ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻣﺤﺴﻮﺳﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﺎﻣﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮا ﺗﻢ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮨﯽ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ ﺟﺐ ﻗﺪﺭﺕ ﻧﮯ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﮨﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﮭﺒﺮﺍﻧﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺟﺘﻨﯽ ﺟﻠﺪ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﺍﺫﯾﺖ ﮐﻢ ﮨﻮﮔﯽ
/صفحہ نمبر :

Naats

اہم مسئلہ

اگر کوئی شخص پہلی رکعت میں ہی سورہ ناس پڑھ دے، تو اس کو چاہیے کہ دوسری رکعت میں بھی اسی سورت کو پڑھ کر نماز پوری کرے۔ (اہم مسائل/ج:۶/ص:۶۱)

حدیث الرسول ﷺ

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ فَيَبْعَثُ سَرَايَاهُ فَيَفْتِنُونَ النَّاسَ فَأَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً(مسلم شریف:۲۸۱۳)

حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، ابلیس کا تخت سمندر پر ہوتا ہے۔ پس وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو فتنہ میں ڈالیں۔ پس ان لشکر والوں میں سے اس کے نزدیک بڑے مقام والا وہی ہوتا ہے جو ان میں سب سے زیادہ فتنہ ڈالنے والا ہو ۔(تفہیم المسلم)

Download Videos

قانون توڑنا جائز نہیں

آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱؁ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،