آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱؁ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اختلاف کے باوجود بے نظیر اتحاد:

اختلاف کے باوجود بے نظیر اتحاد:

حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں بعض مسائل کا اختلاف رہا ہے ؛ مگر ایک دوسرے کے احترام میں کبھی فرق نہیں آیا ، کون نہیں جانتا کہ خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کے مسئلے میں صحابۂ کرام میں شدید اختلاف ہوا اور اس کی بنا پر جنگ بھی ہوئی ؛ مگر کیا مجال کے ان کے اس اختلاف سے ایک دوسرے کے احترام میں فرق آجائے ۔ چناںچہ عین جنگ کے موقعے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو روم کی عیسائی سلطنت کی طرف سے جس کا سربراہ ’’ قیصر ‘‘ تھا خط ملا ۔ اس میں لکھا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے امیر ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور تم پر ظلم کر رہے ہیں ، اگر آپ چا ہیں ؛ تو ہماری فوج آپ کی مددکو بھیچ دیں گے ۔ اگر ہم آپ کی جگہ ہو تے ، تو مخالف کی تو ہین و تذلیل اور اس کو شکست دینے کے لیے فوج منگوالیتے ۔ مگر گوش ہوش سے سننے کے قابل ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیصر روم کو جواب یہ دیا : ’’ اے نصرانی کتے ! تو ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ؟ ! یاد رکھ اگر تو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ترچھی نگاہ سے بھی دیکھا ، تو سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا سپا ہی بن کر تیری آنکھ پھوڑنے والا میں ہوں گا ۔ ‘‘ ایسے سینکڑو ں واقعات ہیں ، یہاں مثال کے طور پر ایک نقل کیاگیا ہے ، غرض یہ ہے کہ امت کے اتحاد کے لیے لا زم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام اور اکرام کریں اور اپنے اختلا فات کو حدود سے آگے نہ بڑھنے دیں اور آپس میں حسنِ سلوک کا معاملہ کریں ۔ (واقعات پڑھئے اور عبرت لیجئے)