روس کے ادب کو انسانی نفسیات کی گہرائی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے منفرد مقام حاصل ہے۔ •"اگر تم میری تکلیفوں پر بھی قابض ہو جاؤ... میں پہلے والا انسان نہیں رہوں گا۔" — فیودر داستایفسکی (کتاب: "برادران کارامازوف") • "جو لوگ اجتماعی المیے میں اکٹھے ہوتے ہیں، وہ اکثر ایک دوسرے سے بے حسی محسوس کرتے ہیں۔" — اینٹن چیخوف (کتاب: "دی سیگل") • "یادداشت کا المیہ یہ ہے کہ ہم جسے بھولنا چاہتے ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔" — داستایفسکی (کتاب: "یادوں کے اُجالے میں") • "جب کوئی تمہیں دھوکہ دے تو معافی دے سکتے ہو، مگر پھر کبھی اُسے اپنے قریب مت آنے دو۔" — لیو ٹالسٹائی (کتاب: "انا کرینینا") •"انسان کو اُس وقت تک کوئی شفا نہیں دے سکتا جب تک وہ اپنے ماضی کے پچھتاوے کو سینے سے لگائے رکھے۔" — داستایفسکی (کتاب: "جرم و سزا") • "سردیاں اُن کے لیے بھی اتنی ہی بے رحم ہوتی ہیں جن کے پاس گرم یادیں نہیں، اور اُن کے لیے بھی جو یادیں لے کر زندہ رہتے ہیں۔" — داستایفسکی (کتاب: "ابدی شوہر") • "محبت کے سب سے خوبصورت لمحے وہ ہوتے ہیں جو جدائی سے پہلے آتے ہیں۔" — داستایفسکی (کتاب: "نیچے تہہ خانے سے") • "میری فتحوں پر مت جاؤ، بلکہ اُن شکستوں پر غور کرو جن سے میں نے زندگی سیکھی۔" — چیخوف (کتاب: "جزیرہ سخالین") • "کھڑکی کے کنارے بیٹھنے والے راستوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، بس خوابوں میں کھوے رہتے ہیں۔" — میخائل لیرمنٹوف (کتاب: "ہمارے زمانے کا ایک ہیرو") • "اُس بوڑھے سے بدتر کوئی نہیں جو اپنے خواب اپنے بیٹے کے سپرد کر کے خود مہمان خانے میں سو جاتا ہے۔" — داستایفسکی (کتاب: "برادران کارامازوف")

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

مسئلہ فلسطین اور ہماری ذمہ داریاں

مسئلہ فلسطین اور ہماری ذمہ داریاں

مسلمانوں کی دینی یا دنیوی پریشانیوں پر اہلِ علم کا اضطراب: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور تصنیف؛ حیات المسلمین کے شروع میں ’’تسہیلِ مقدمہ‘‘ کے عنوان سے مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک وقیع مقدمہ شامل ہے، اس میں حضرت مفتی صاحب ؒ نے عالمِ اسلام کے اور مسلمانوں کے زوال و انحطاط حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بے چینی و اضطراب اورفکرمندی سے متعلق تحریر فرماتے ہیں: [’’جہاں کہیں مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی یا کسی پریشانی کی خبر آتی، وہ غم میں اس طرح گھلنے لگتے تھے جیسے کسی شفیق باپ کی صلبی اولاد پر کوئی مصیبت ائی ہو۔؎ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اس سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس پرفتن دور میں ایسے جذبہ رکھنے والے کو چین و ارام کہاں؟ خود احقر نے بارہا دیکھا کہ جب کوئی فتنہ مسلمانوں میں چلا جس سے ان کی دینی یا دنیاوی تباہی کا خطرہ تھا، تو حضرت کا نظامِ صحت مختل اور قوی میں ضعف و اضمحلال نظر آنے لگتا تھا۔ ایک ایسے ہی فتنہ کے زمانے میں خود فرمایا کہ: ’’ مسلمانوں کی موجودہ حالت اور اس کے نتائج کا تصور اگر کھانے سے پہلے آ جاتا ہے تو بھوک اڑ جاتی ہے اور سونے سے پہلے آ جاتا ہے تو نیند اڑ جاتی ہے۔‘‘] (بحوالہ: حیات المسلمین،ص۷،مطبوعہ مکتبۃ المیزان) جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے علم کی حقیقت نصیب ہوئی ان کا ہمیشہ یہی طرزِ عمل رہا ہے کہ وہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے تھے اور اس کیلئے ہر لحاظ سے فکرمند رہتے ہیں۔اکابر علمائے کرام میں اور بزرگانِ دین میں اس کی دسیوں نہیں سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی۔ اسی بات کے تناظر میں ہمیں آج ہم مسئلۂ فلسطین کو سامنے رکھ کر اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ اس اہم ترین مسئلے سے متعلق ہماری فکرمندی اور اضطراب کس درجے کا ہے؟ جتنا کچھ ہم کر سکتے ہیں، کیا وہ ہم کررہے ہیں؟ کیا ہم اہلِ فلسطین کیلئے اسی طرح دعائیں مانگ رہے ہیں جس طرح اگر خدانخواستہ ہماری اپنی اولاد، والدین ، بہن بھائی کسی مشکل میں گرفتار ہوتے تو ہم ان کیلئے مانگتے........! دعا مومن کا ہتھیار ہے،اس ہتھیار کو استعمال کیجیے اور دردِ دل کے ساتھ، تضرع و عاجزی کے ساتھ اپنے مظلوم و مقہور بھائیوں کیلئے سراپا دعا بن جائیے۔ اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائے اور اہلِ فلسطین کو ظلم و جبر سے خلاصی نصیب فرمائے۔ آمین۔ --------تحریر ابومعاذ راشد حیسن---------- منقول۔