اس وقت سوشل میڈیا پر مسلمان لڑکیوں کے ارتداد کے تعلق سے زبردست بحث جاری ہے۔ معلوم نہیں آیا ان واقعات کی تعداد اتنی ہی زیادہ ہے جتنی بیان کی جارہی ہے یا یہ صرف اتنی ہے جو ہندوستان یا کسی غیر مسلم معاشرے میں ہمیں اپنی کمیوں کے باعث کبھی کبھی ادا کرنی پڑ جاتی ہے۔ بہرحال علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ایک مسلمان کا مرتد ہو جانا بھی مسلمانوں کے لیے مصیبت کبری ہے، بالخصوص عورتوں کا ارتداد، معاذ اللہ ! معاذ اللہ ! بڑا مہلک ہوگا ، خدا نہ کرے کہ عورتوں میں اس قسم کی تحریک سرایت کر جائے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صدی قبل جس خدشے کا اظہار کیا تھا آج وہ حقیقت کا روپ دھار کر مسلم معاشرہ کو ڈس رہا ہے۔ مسلمان لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے فتنہ ارتداد نے مسلم معاشرہ کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ فتنہ ارتداد مسلم لڑکیوں میں پھیل رہا ہے یہ مقام فکر و تدبر ہے۔ فتنہ ارتداد کی روک تھام اور ایمانی تحفظ و بقا کے سلسلے میں مستقل لائحہ عمل بنانے اور زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اور ان اسباب و وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت ہے جن پر دہائیوں سے باتیں ہو رہی ہیں ؛ لیکن ان کو حل کرنے کی خاطر خواہ کامیاب کوشش بظاہر نظر نہیں آرہی ہے۔ جو حضرات فتنہ ارتداد کے سد باب کے لیے کمر بستہ ہیں یا تو اُن کی رسائی بہت محدود ہے یا اُن کے وسائل بڑے پیمانے پر کام کرنے سے مانع ہیں ، جن کو یہ دونوں چیزیں حاصل ہیں اُن کی ترجیحات میں اب تک یہ فتنہ ارتداد شامل نہیں ہو سکا ہے؛ حالاں کہ فتنہ ارتداد ایسا زبردست زہر ہلاہل ہے جو نہ صرف مسلم معاشرہ کو ذلت و نکبت کی جانب دھکیل رہا ہے؛ بلکہ اس کی وجہ سے آنے والی نسل بھی مذہب اسلام سے دور اور بیزار ہوسکتی ہے۔ ایک تحقیقی جائزہ: (۱) با ضابطہ ایسے ہندو جوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی ہے جنھیں فنڈنگ کی جاتی ہے، جن کا کام ہی محبت کے نام پر مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنا ہے، یہ لوگ پہلے ہمدردی کے نام پر کسی مسلمان لڑکی سے قریب ہوتے ہیں، پھر محبت کا فریب دیتے ہیں، اور شادی کا وعدہ کرتے ہیں، اور پھر جنسی استحصال کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ (۲) جو مسلمان لڑکیاں دینی ذہن یا گھر کی تربیت کی وجہ سے کچھ محتاط ہوتی ہیں ، اُن کو قابو میں لانے کے لیے دوسری غیر مسلم لڑکیوں کا سہارا لیا جاتا ہے، وہ لڑکیاں اُس لڑکی سے دوستی کرتی ہیں اور پھر غیر مسلم لڑکوں سے دوستی کراتی ہیں۔ (۳) موبائیل اور زیراکس کی دوکانوں کے ذریعے بھی مسلمان لڑکیوں کے نمبر، اُن کی تصویر میں اور دوسری معلومات اُن لڑکوں تک پہونچائی جا رہی ہے، جو اس کام پر لگے ہوئے ہیں۔ (۴) مسلمان لڑکیوں کو ورغلانے اور دام فریب میں پھنسانے کے لیے روپے پیسے کا بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ سد باب: یہ صورت حال ایسی سنگین ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے، پانی سر سے نہیں چھت سے اُونچا ہوتا جارہا ہے ، جس کے لیے چند باتیں ضروری ہیں: (۱) اسلامی نظام کے مطابق مسلمان بچیوں کو پردے کا پابند بنایا جائے ، اُن میں حیاداری ، عفت و عصمت کی حفاظت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ (۲) مخلوط نظام تعلیم سے اپنی بچیوں کو بچایا جائے اور جو لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہی ہیں ، اُن کی دینی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جائے۔ لو جہاد، مسلمان لڑکیوں کا ارتداد، احتیاط و تدابیر اور لائحہ عمل ۔ (۳) ٹیوشن کلاس کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع نہ دیا جائے۔ (۴) غیر مسلم لڑکیوں کی دوستی سے بھی روکا جائے۔ (۵) والدین وقت پر اپنی بچیوں کا نکاح کر دیں تعلیم کے نام پر تاخیر نہ کریں؛ کیوں کہ جنسی مخالف کی طرف میلان فطری تقاضا ہے؛ اس لیے کم از کم نکاح کر دیں، باقی کام بعد میں کر لیں؛ تاکہ لڑکی پُرسکون ہو جائے۔ (۶) جہیز اور بارات کی لعنت کو ختم کریں؛ تاکہ نکاح آسان ہو سکے، علمائے کرام جہیز والی شادیوں کا بائیکاٹ کریں۔ (۷) میری لڑکوں سے گزارش ہے کہ اگر کوئی لڑکی نکاح کے بعد تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہے تو اُسے اجازت دیں تاکہ تعلیم نکاح میں رکاوٹ نہ بنے ۔ لائحہ عمل : (۱) اپنی اولاد کے ہاتھ سے فون لے لیں ۔ (۲) اپنی بڑی اولاد کو اس کا پابند بنائیں کہ وہ اپنا دن بھر کا نظام العمل بنا کر کام کریں اور فون سے ضرورت کے علاوہ اوقات میں دور رہیں۔ (۳) اولاد اپنے گھر کی اجازت کے بغیر باہر نہ جائے اور والد خوب تفتیش کر کے اطمینان کے بعد اجازت دے۔ (۴) کوئی کام والد اور والدہ کی اجازت کے بغیر نہ کرے۔ (۵) گھر کے نگران رات کو سونے سے قبل سبھی حضرات کے فون لے کر رکھ لیں ۔ (۶) گھر یلو نظام العمل میں کسی وقت دینیات کی ضرور تعلیم دے۔ حرف آخر: اسلامی نقطۂ نظر سے ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس اور جملہ جدو جہد اور کدو کاوش کی شاہ کلید ہے، جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے، وہ ہماری سیرابی کا اصلی سرچشمہ ہے، جس کے بغیر ہمارے کاموں کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں رہتی؛ کیوں کہ وہ دیکھنے میں تو کام معلوم ہوتے ہیں؛ مگر روحانی آثار و نتائج کے اعتبار سے بے ثمر ہوتے ہیں، خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضا مندی کا حصول ہی ہمارے اعمال کی غرض وغایت ہے۔ کیوں کہ میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے ۔ آمین !

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اللہ والوں کی صحبت کا اثر __؟؟

اللہ والوں کی صحبت کا اثر __؟؟

حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ : ایک سال ہم حج کے لئے گئے وہاں علماء کے گروپ میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بھی تھا تہجد کے وقت وہ فوجی افسر ہم سب سے پہلے اٹھ کر بیت الله شریف چلا جاتا اور اس وقت طواف کرتا تھا ۔ مولانا فرماتے ہیں : میں حیران ہوتا کہ وہ ایک عام آدمی ہے اور میں شیخ الحدیث, دیوبند کا فاضل ، علامہ انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث کا شاگرد استاذ العلماء ہوں مگر یہ عام سا مسلمان وہ بھی فوجی افسر ریٹائرڈ جو مجھ سے بڑا عابد و زاہد ہے۔ مولانا بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : میں نے ایک دفعہ ارادہ کیا کہ اب میں اس سے پہلے تہجد کے لئے اٹھا کروں گا سو جب میں رات کو اٹھا تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ وہ اپنے بستر میں سویا ہوا ہے میں بڑا خوش ہوا کہ شکر ہے آج میں عبادت گزار عام سے مسلمان پر فوقیت لے گیا ، حمام سے وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر جب میں کمرے میں آیا تو دیکھا وہ ریٹائرڈ فوجی افسر میرے لئے چائے کا کپ لے کر کھڑا ہے ۔ میں حیران ہوا کہ یہ بندہ تو ابھی بستر میں لیٹا ہوا تھا یہ اتنی جلدی باہر سے چائے لے کر بھی آ گیا ہے مگر جب بستر پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ اس کے بستر میں کوئی سو رہا ہے, میں نے پوچھا : میاں آپ انسان ہو یا جن ؟ یہ آپ کے بستر میں آپ نہیں تو یہ کون ہے؟ اس نے ہنس کر کہا : مولانا ! میں انسان ہی ہوں، میں جب تہجد سے ذرا پہلے حرم شریف گیا تو میں نے وہاں ایک ناواقف حاجی صاحب کو بخار میں مبتلا دیکھا، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اسے اپنی قیام گاہ پر یہاں لے آیا اس کو اپنے بستر میں سلا کر واپس حرم شریف چلا گیا تھا۔ سو بستر میں یہ میں نہیں بلکہ بیمار حاجی صاحب ہیں ۔ حضرت بنوری رحمہ اللہ نے حیرت زدہ ہو کر اس سے پوچھا کہ میاں آپ کون ہو جس نے یعنی ایک ریٹائرڈ فوجی نے مجھ عالم اور شیخ الحدیث کو, دیوبند کے فاضل کو استاذ العلماء کو, بہت بڑے مدرسے کے مہتمم کو, علماء کے گروپ لیڈر کو زہد و تقویٰ میں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آج میں نے ارادہ کیا تھا کہ آج کے بعد آپ سے پہلے اٹھوں گا اور آپ سے پہلے حرم جایا کروں گا لیکن میں آپ کا مقابلہ نہ کرسکا۔ سچ سچ بتا دیں کہ آپ ہیں کون ؟ اس فوجی افسر نے جواب دیا کہ : میں شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا مرید ہوں. مولانا بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے آپ پر افسوس کیا کہ قطب الاقطاب مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت کی وجہ سے عام سے ایک مسلمان کو اللہ کے ہاں کتنا خاص مقام حاصل ہے ۔ اس واقعہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے اتنا بلند مقام ملتا ہے کہ اگر مرید عام سا مسلمان بھی ہو تو وہ عمل کے لحاظ سے بڑے بڑے اہل علم سے آگے نکل جاتا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالٰی ہمیں بھی نیک لوگوں کی قدر کرنے اور ان کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین.