پـانـچ جامـع تـفـاسـیر

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اپنی مشہور تصنیف " علوم القرآن" میں لکھتے ہیں: "یہ پانچ تفاسیر ( یعنی تفسیر کبیر،تفسیر ابن کثیر،تفسیر قرطبی، تفسیر روح المعانی اور تفسیر کشاف) احقر کے ناچیز ذوق کے مطابق ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف انہی پر اکتفا کرلے تو ان شاءاللہ تعالٰی مجموعی حیثیت سے اسے دوسری تفاسیر سے بے نیاز کردیں گی ـ یہ احقر کی ذاتی رائے تھی، بعد میں اپنے مخدوم بزرگ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب مد ظلہم العالی کے ایک مقالے سے اس کی تقریباﹰ حرف بحرف تایید ہوگئی، فـللہ الحمد. موصوف اپنے گراں قدر مقالے "یتیمـته البیان" میں تحریر فرماتے ہیں: " چونکہ عمرِ عزیز کم ہے، آفات زمانہ زیادہ اور ہمارے دور میں ہمتیں پست، اور عزائم کمزور ہوگئے ہیں.... اس لیے میں اپنے طالب علم بھائیوں کو چار ایسی تفاسیر کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اُن پر قناعت کرنا چاہے تو وہ ان شاءاللہ تعالٰی کافی ہوں گی ـ ❶. ایک تفسیر ابن کثیر .... جس کے بارے میں ہمارے استاد ( حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ تعالٰی) فرماتے تھے: " اگر کوئی کتاب کسی دوسری کتاب سے بے نیاز کرسکتی ہے تو وہ تفسیر ابن کثیر ہے ـ جو تفسیر ابن جریر سے بے نیاز کر دیتی ہے ـ " ❷دوسری تفسیر کبیر امام رازی جس کے بارے میں ہمارے استاد فرماتے تھے" قرآن کریم کے مشکلات میں مجھے کوئی مشکل ایسی نہیں ملی جس سے امام رازی رحمہ اللہ تعالٰی نے تعرض نہ کیا ہو، یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات مشکلات کا حل ایسا پیش نہیں کر سکے جس پر دل مطمئن ہو جائے اور اس کے بارے میں جو کہا گیا ہے"فـيه كل شئ إلا التفسیر" یہ تو خواہ مخواہ اس کی جلالتِ قدر کو کم کر کے دکھانا ہے اور شاید یہ کسی ایسے شخص کا قول ہے جس پر روایات کا غلبہ تھا اور قرآن کریم کے لطائف و علوم کی طرف توجہ نہ تھی ـ ❸. تیسری تفسیر روح المعانی جو میرے نزدیک قرآن کریم کی ایسی تفسیر ہے جیسے صحیح بخاری رحمہ اللہ تعالٰی کی شرح فتح الباری، الا یہ کہ فتح الباری ایک کلامِ مخلوق کی شرح ہے، اس لیے اس نے شرح بخاری کا جو قرضہ امت پر تھا اسے چکا دیا ہے اور اللہ تعالٰی کا کلام اس سے بلند و برتر ہے کہ کوئی بشر اس کا حق ادا کرسکے ـ ❹. چوتھی تفسیر ابی السعود ہے، جس میں نظم قرآنی کو بہترین عبارت میں بیان کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے اور وہ بسا اوقات زمخشری کی کشاف سے بے نیاز کردیتی ہےـ" اس عبارت میں تفسیر قرطبی رحمہ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر انہی چار کتابوں کا تذکرہ انہی خصوصیات کے ساتھ کیا گیا ہے جو نا چیز کی سمجھ میں آئی تھیں ۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالٰی اور ان کے تلمیذ رشید حضرت بنوری مدظلہم کے ساتھ اس توافق پر میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں ۔ __________📝📝__________ (کتاب : تحریر کیسے سیکھیں؟ صفحہ نمبر : ۲۷۰ مصنف : مفتی ابو لبابہ شاہ منصور انتخاب: اسلامک ٹیوب پرو ایپ )

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

کہانی کے دو رخ ۔ 🎭

کہانی کے دو رخ ۔ 🎭

انیس سو چھپن میں امریکا میں ایک بحری جہاز تیل لے کر جا رہا تھا‘ یہ جہاز اچانک اپنے روٹ سے ہٹا۔ سمندر میں موجود ایک چٹان سے ٹکرایا اور پاش پاش ہو گیا۔ حادثے کے بعد جہاز کے کپتان کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے حادثے کی وجہ پوچھی گئی۔ کپتان نے بتایا وہ جہاز کے ڈیک پر کھڑا تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ اچانک آسمان سے آبشار کی طرح ڈیک پر پانی گرا اور پانی کے ساتھ ہی آسمان سے ایک موٹی تازی بھینس نیچے گری۔ بھینس کے گرنے سے جہاز کا توازن بگڑا اور یہ چٹان سے ٹکرا گیا۔ یہ ایک عجیب قسم کی سٹوری یا جواز تھا اور کوئی بھی نارمل شخص اس سٹوری پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔آپ بھی اس پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اگر آسمان بالکل صاف ہو‘ آسمان سے اچانک آبشار کی طرح پانی گرے اور ذرا دیر بعد ایک دھماکے کے ساتھ آسمان سے ایک بھینس نیچے گر جائے تو اس پر کون یقین کرے گا۔ کپتان کی بات پر بھی کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔ آئل کمپنی نے اس کو جھوٹا قرار دے دیا۔ پولیس نے اسے مجرم ڈکلیئر کر دیا اور آخر میں نفسیات دانوں نے بھی اسے پاگل اور جھوٹا قراردے دیا۔ کپتان کو پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا‘ یہ وہاں پچیس سال تک قید رہا اور اس قید کے دوران یہ حقیقتاً پاگل ہو گیا۔ یہ اس کہانی کا ایک پہلو تھا اور اس پہلو کو دیکھنے‘ سننے اور پڑھنے والے اس کپتان کو پاگل یا جھوٹا کہیں گے ۔ اب آپ اس کہانی کا دوسرا اینگل ملاحظہ کیجئے اور اس اینگل کے آخر میں آپ کو یہ کپتان دنیا کامظلوم ترین شخص دکھائی دے گا۔اس واقعے کے پچیس سال بعد ائر فورس کے ایک ریٹائر افسر نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی‘ اس کتاب میں اس نے انکشاف کیا‘ 1956ءمیں ایک پہاڑی جنگل میں آگ لگ گئی تھی اور اسے آگ بجھانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ اس نے ایک جہاز کے ساتھ پانی کا ایک بہت بڑا ٹینک باندها، وہ اس ٹینک کو جھیل میں ڈبو کر بھرتا جنگل کے اوپر جاتا اور پانی آگ پر گرا دیتا اور ٹینک بھرنے کیلئے دوبارہ جھیل پر چلا جاتا وہ ایک بار پانی کا ٹینک لے کر جا رہا تھا کہ اسے اچانک ٹینک کے اندر اچھل کود محسوس ہوئی اسے محسوس ہوا ٹینک کے اندر کوئی زندہ چیز چلی گئی ہے اور اگر اس نے ٹینک پیچھے نہ گرایا تو اس چیز کی اچھل کود سے اس کا جہاز گر جائے گا اس نے فورا ٹینک کھول دیا، ٹینک سے پانی کی آبشار سی نیچے گری اور اس کے ساتھ ہی موٹی تازی بھینس بھی پیچھے کی طرف گر گئی یہ پانی اور بھینس نیچے بحری جہاز کے ڈیک پر گر گئی۔ آپ اب کہانی کے اس پہلو کو پہلے اینگل سے جوڑ کر دیکھئے آپ کو سارا سینیاریو تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔ لہذا یاد رکھیے آپ جب تک دوسرے فریق کا موقف نہ سن لیں اس وقت تک آپ کسی شخص کی کہانی، کسی شخص کی دلیل پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ جب تک ملزم اور مدعی کا موقف سامنے نہیں آتا صورتحال واضح نہیں ہوتی۔ حقائق کیا ہوتے ہیں، حقائق کہانی کی طرح ہوتے ہیں اور آپ جب تک کہانی کا دوسرا پہلو یا اس کا دوسرا اینگل نہیں دیکھ لیتے اس وقت تک اسٹوری مکمل نہیں ہوتی، اس وقت تک حقیقت آپ کے سامنے نہیں آتی لہذا زندگی میں جب بھی آپ ایسی صورتحال کا شکار ہوں آپ ہمیشہ دونوں فریقین کو سننے کے بعد فیصلہ کریں۔