مولا! میرا نُور مجھے لوٹا دے!!

(نوٹ : اس منشور کے مخاطبین صرف علوم شریعت کے طلبہ ہیں۔) اہلِ معرفت نے علمِ شرعی کی تعریف کی ہے کہ یہ اللہ کا نور ہے جو بندے کے سینے میں روشن ہو جاتا ہے۔ یہ نُور دل میں قندیل کی لَو کی مانند باقاعدہ محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ طالبِ علم تو اس فکر میں زندگی گُھلا دیتا ہے کہ یہ نُور بجھ نہ جائے! مالک بن دینار رحمہ اللہ کے فرمان "عمل کیلیے حاصل کیا گیا علم بندے کو توڑ کر رکھ دیتا ہے!" کا یہی معنی ہے۔ طالبِ علم بہت سارے گناہوں سے صرف اس لیے دُور رہتا ہے کہ میرا نُور مجھ سے چِھن نہ جائے۔ بسا اوقات ایک حرام نظر طویل عرصہ تک دل کو تاریک کر دیتی ہے۔ دل تعلق باللہ کی حلاوت سے شناسا ہونے کے باوجود کوئی تحریک نہیں پاتا، فالج زدہ ہو جاتا ہے، اسے گرہن لگ جاتا ہے۔ بعض دفعہ ہنسی مذاق اور قہقہوں کی مجلس طویل ہو جائے تو بیٹھے بیٹھے دل ٹَھک سے بند ہو جاتا ہے۔ جیسے ہوا کے تیز جھونکے سے چراغ بجھتا ہے۔ پوری نیت کے ساتھ ذکر و تلاوت کے ذریعے اس کو پھر سے روشن نہ کیا جائے تو وہ بند ہی رہ جاتا ہے۔ بحث و جدال بھی علم کا نُور لے جاتے ہیں۔ انسان کسی بے نتیجہ بحث میں مبتلا کر دیا جائے تو دل باقاعدہ سخت ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر کیلیے نماز کا خشوع اور مناجات کی لذت رُوٹھ جاتے ہیں۔ بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ کبھی والدین کے سامنے آواز اونچی ہو جائے تو یکا یک دل مَر سا جاتا ہے! وحشت طاری ہو جاتی ہے۔ گویا ایک دم علم کے سب پلندے وجود سے الگ ہو کر گُھور رہے ہوں کہ یہ کیا کر دیا؟! دل کی دنیا اندھیری کرنے کیلیے دنیا کی چَکا چوند سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ بعض دفعہ تو اہلِ دنیا کے ٹھاٹھ کی طرف نظر اٹھانے سے ہی بصیرت چُندھیا جاتی ہے۔ تو پھر اس طالب علم کا کیا حال ہو گا جس کا اٹھنا بیٹھنا ہی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جن کے دل دنیا کی محبت سے لبریز ہوتے ہیں، اور جن کی باتوں کا محور دنیا ہوتی ہے؟! کبھی علم والوں سے پوچھ کر دیکھیے کہ باجماعت نماز کے چُھوٹ جانے سے کیا گزرتی ہے؟! دنیا بیگانی سی نہیں ہو جاتی؟! کھانا بدمزہ ہو جاتا ہے۔ قدم بوجھل ہو جاتے ہیں۔ دوستوں کی مجلس بوجھ بن جاتی ہے۔ جب تک کہ انسان اپنے رب کے سامنے گڑگڑا نہ لے کہ مولا! میرا نُور مجھے لوٹا دے!! اور یہ توفیق بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ جب امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے شاگرد بن کر بیٹھے تو استاد نے فرمایا : ”مجھے لگتا ہے کہ اللہ نے تمہارے سینے میں علم کا نُور روشن کر دیا ہے، دیکھو! گناہوں کی تاریکی سے اِسے بجھنے نہ دینا!“ اور ہم میں سے بہت ساروں کے نُور بجھ چُکے ہیں، مگر ہمیں احساس نہیں ہے۔ ہم علم کی دکان کے باہر نصب بے جان مجسمے ہیں۔ اور نہیں تو کیا! سہل التستری رحمہ اللہ ایک نورانی جملہ کہہ گئے ہیں : "حرامٌ على قلبٍ أن يدخله النُّور، وفيه شيء مما يكره الله عز وجل!" حرام ہے کہ اس دل میں نور داخل ہو جائے، جس میں تاریکیاں ہوں! جس میں دنیا کی محبت ہو! جو نامحرم سے تعلق استوار کرتا ہو! جسے خلقِ خدا پر ظلم کی نحوست نے کالا کر دیا ہو! جس کا "میں" کا ڈنک نکلا نہ ہو! ... طالب علم کو چاہیے کہ ہر وقت فکرمند رہے کہ کہیں میرا نُور مجھ سے چِھن نہ جائے۔ اس فکر کو روگ بنا لے۔ لامحالہ اسے بہت سے مشاغل ترک کرنے پڑیں گے، کئی صحبتوں کو خیر آباد کہنا پڑے گا، کئی رویوں پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔ پھر شاید وہ سلفِ اوائل کی اس بات کا کچھ مصداق بن جائے کہ : ”ہم میں سے جب کوئی علم حاصل کرتا تھا تو وہ علم اس کی چال ڈھال میں نظر آ جاتا تھا۔“ يا نورَ السماوات والأرض، أتمِمْ لنا نورَنا واغفر لنا! ___________📝📝___________ منقول۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت ابراھیم بن ادہمؒ کی چھ ❻ قیمتی نصائح

حضرت ابراھیم بن ادہمؒ کی چھ ❻ قیمتی نصائح

ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ کچھ نصحیت فرمائیے آپ نے فرمایا چھ (❻) باتیں بتاتا ہوں ان پر عمل کرو پھر کچھ بھی کروگے نقصان نہ پہنچے گا آپ نے ان چھ باتوں کی وضاحت اس طرح کی: ❶ جب گناہ کرو تو اس کی ( اللہ پاک) کی نعمت مت کھاؤ دنیا میں جو کچھ ہے وہ اس کی نعمت ہے کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ اس کی نعمت سے بہرہ مند ہو اور پھر بھی گناہ کرو ـ ❷ اگر گناہ کرنا چاہو تو اس کے ملک سے باہر چلے جاؤ مشرق مغرب تک اس کا ملک ہے یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ اس ملک میں رہ کر اس کی نافرمانی کی جائے ـ ❸ اگر گناہ کرو تو ایسی جگہ کرو جہاں اللہ تعالٰی تجھ کو نہ دیکھتا ہو کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ اسکے ملک میں رہو،اسکا رزق کھاؤ اور پھر اسکے سامنے گناہ کرو ـ ❹ جب ملک الموت قبض روح کے لئے آئیں تو ان سے کہو کہ اتنی مہلت دیجیے کہ توبہ کرلوں اگر تجھ کو اتنی قدرت حاصل نہیں ہے کہ ملک الموت کو اپنے پاس سے واپس کردے تو بہتر یہی ہے کہ ملک الموت کے آنے سے پہلے توبہ کرلے ـ ❺ جب منکر نکیر تیری قبر میں آئیں تو تُو ان کو کسی بہانے سے اپنے پاس سے واپس کردے اگر یہ بات دشوار ہے تو تجھ کو چاہیئے کہ ان کے آنے سے پہلے جواب تیار کر رکھے تاکہ اس وقت پریشانی نہ ہو ـ ❻ جب بروز قیامت گناہ گاروں کو دوزخ میں بھیجا جانے لگے تو تو دوزخ میں جانے سے انکار کردے اگر یہ ممکن نہیں تو پھر ایسا کوئی کام کرنا چاہئے جس سے تو عذاب میں گرفتار نہ ہووے یہ سب باتیں سن کر اس شخص نے عرض کیا کہ وہ مطلب بخوبی سمجھ گیا اس شخص نے اسی وقت توبہ کی اور آپ کی خدمت میں رہنے لگا ـ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : اللہ کے عاشقوں کی عاشقی کا منظر ( صفحہ نمبر ۱۵۳) مؤلف: مولانا ارسلان اختر میمن انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ