بادشاہ اور بچہ کی حکیمانہ گفتگو!

حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ جب کوئی دعا مانگتے اور آنکھ سے کوئی آنسو آتا تو حضرت ان آنسوؤں کو اپنے چہرے پر مل لیا کرتے ایک مرتبہ ایک طالب علم نے دیکھ لیا۔ اس نے کہا ،حضرت! آپ کا یہ عمل کس بنا پر ہے؟ فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان آنسوؤں کی برکت سے میرے چہرے کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرمائیں گے۔“ وہ بھی آخر طالب علم تھا، کہنے لگا: ’’کسی کا چہرہ بچ بھی گیا اور باقی جسم کے اعضاء نہ بچے تو پھر کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس پر حضرت اقدس رحمہ اللہ نے ایک حکایت بیان فرمائی، بادشاہ اورنگزیب عالمگیر رحمہ اللہ کے وقت میں ایک وزیر فوت ہوا وزیر کا ایک بیٹا چھوٹی عمر کا تھا مگر بہت سمجھ دار تھا، بادشاہ نے اس بچے کو دل لگی کی خاطر بلایا،،،،،، جب وہ بچہ حاضر ہوا تو اس وقت اورنگزیب عالمگیر رحمہ اللہ تالاب کے کنارے بیٹھے تھے جو اپنے محل میں بنوایا تھا۔ وہ بچہ قریب ہوا ،سلام کیا ، جب اس نے مصافحہ کیا تو بادشاہ نے اس کی انگلیاں مضبوطی سے پکڑ لیں اور بچے سے کہا: میں تمہیں کھینچ کر پانی میں نہ ڈال دوں.....؟ وہ بچہ مسکرا پڑا، بادشاہ اورنگزیب بڑے حیران ہوۓ کہ بچے کو تو گھبرانا چاہئے تھا اور سبھی کہتے ہیں کہ بچہ سمجھ دار ہے، چنانچہ آپ نے پوچھا: تو کیوں ہنس رہا ہے۔۔۔۔۔۔؟ وہ بچہ کہنے لگا: ’’ بادشاہ سلامت! میرے ہاتھ کی چند انگلیاں آپ کے ہاتھوں میں ہیں، بھلا مجھے ڈوبنے کا کیا ڈر ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے کھینچ کر اس پانی میں ڈبو دیں گے۔ یہ حکایت سنا کر حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر اس بچے کو بادشاہ کی انگلیاں پکڑنے پر اتنا اعتماد ہے تو کیا اللہ کی رحمت پر ہمیں اتنا بھی اعتماد نہ ہو کہ اگر وہ چہرہ جہنم کی آگ سے بچائیں گے تو پورے جسم کو بھی جہنم کی آگ سے آزاد فرما دیں گے۔ ہر دینے والا اپنی حیثیت کے مطابق دیتا ہے۔ بادشاہوں کے عطایا بادشاہوں کی شان کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہم بھی اللہ رب العزت سے بہترین حسن ظن رکھیں گے تو وہ اپنی شان کے مطابق معاملہ فرمائیں گے، باپ اپنے چھوٹے بچے کو تھوڑا سا دور کھڑا کر کے کہتا ہے: بیٹا میری طرف آؤ۔“ وہ بچہ بہت کوشش کرتا ہے مگر وہ اپنی کوشش میں ناکام ہو جاتا ہے، لیکن وہ بچہ اپنے باپ پر اعتماد کرتے ہوۓ کوشش جاری رکھتا ہے۔ پھر باپ کی محبت جوش میں آتی ہے تو باپ خود جا کر بچے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی طرح ہم بھی اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے کوشش جاری رکھیں، ہماری کوشش کمزور بھی ہوئی تو ماں باپ سے ستر گنا زیادہ محبت کرنے والا شہنشاہ ہمیں ضرور اپنی محبت عطا فرما دے گا، جب ہمیں اللہ تعالی کی محبت نصیب ہوگئی تو ہم دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہو جائیں گے۔ ____________📝📝____________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

تاریخ کی سب سے طاقتور ترین معذرت ۔۔۔!!!!

تاریخ کی سب سے طاقتور ترین معذرت ۔۔۔!!!!

جب حضرتِ ابوذرؓ نے بلالؓ کو کہا . . . "اے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے! اب تو بھی میری غلطیاں نکالے گا . . ؟ بلال یہ سن کر غصے اور افسوس سے بے قرار ہو کر یہ کہتے ہوے اٹھے خدا کی قسم! میں اسے ضرور بالضرور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اٹھاؤں گا!! یہ سن کر اللہ کے رسول کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا: ابوذر! کیا تم نے اسے ماں کی عار دلائی؟؟؟ تمھارے اندر کی جہالت اب تک نہ گئی!! اتنا سننا تھا کہ ابوذر یہ کہتے ہوے رونے لگے: یا رسول اللہ! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئے، اور پھر روتے ہوے مسجد سے نکلے ۔۔ باہر آکر اپنا رخسار مٹی پر رکھ دیا اور بلال سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: "بلال! جب تک تم میرے رخسار کو اپنے پاؤں سے نہ روند دو گے، میں اسے مٹی سے نہ اٹھاؤں گا، یقیناً تم معزز و محترم ہو اور میں ذلیل و خوار!! یہ دیکھ کر بلال روتے ہوے آئے اور ابوذر سے قریب ہو کر ان کے رخسار کو چوم لیا اور بے ساختہ گویا ہوے: خدائے پاک کی قسم! میں اس رخسار کو کیسے روند سکتا ہوں، جس نے ایک بار بھی خدا کو سجدہ کیا ہو پھر دونوں کھڑے ہو کر گلے ملے اور بہت روئے!! ( صحیح بخاری :31 ) اور آج ہم ایک دوسرے کی ہزاروں بار دل آزاری کرتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ ۔ ۔ "بھائی! معاف کریں بہن! معذرت قبول کریں"۔ یہ سچ ہے کہ ہم آئے دن لوگوں کے جذبات کو چھلنی کر دیتے ہیں؛ مگر ہم معذرت کے الفاظ تک زبان سے ادا نہیں کرتے اور "معاف کر دیجئے" جیسا ایک عدد لفظ کہتے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔ معافی مانگنا عمدہ ثقافت اور بہترین اخلاق ہے، جب کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خود کی بے عزتی ہے۔ ہم سب مسافر ہیں، اور سامانِ سفر نہایت ہی کم ہے، ہم سب دنیا و آخرت میں اللہ سے معافی اور درگزر کا سوال کرتے ہیں ۔ *نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے منقول۔