دو طرح کی عورتیں اور قرآنی رہنمائی

گھر سے باہر نکلتے ہی آپ کا دو قسم کی عورتوں سے سامنا ہوتا ہے پہلی قسم : ان عورتوں کی ہے جو عزیز مصر کی بیوی والی بیماری کا شکار ہیں۔ خوب بن سنور کر پرفیوم لگائے بے پردہ ۔۔۔ زبان حال سے کہہ رہی ہوتی ہیں ” ﻫﻴﺖ ﻟﻚ ” دوسری قسم : وہ عورت جو ستر و حجاب کی پابند ، مگر مجبوری نے اسے گھر سے نکالا۔ وہ اپنی زبان حال سے کہہ رہی ہوتی ہے ” ﺣﺘﻰ ﻳﺼﺪﺭ ﺍﻟﺮﻋﺎﺀ ﻭﺃﺑﻮﻧﺎ ﺷﻴﺦ ﻛﺒﻴﺮ ” پہلی قسم کی عورتوں سے آپ وہی معاملہ کریں جو سیدنا یوسف علیہ السلام نے کیا تھا ، یعنی کہیں ” ﻣﻌﺎﺫ ﺍﻟﻠﻪ ” . اور دوسری قسم کی عورتوں سے آپ وہی معاملہ کریں جو سیدنا موسی علیہ السلام نے کیا تھا، یعنی ادب و احترام سے انکی مدد کریں اور اپنے کام میں مشغول ہو جائیں اور اللہ کا فرمان : ''ﻓﺴﻘﻰ ﻟﻬﻤﺎ ﺛﻢ ﺗﻮﻟﻰ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻈﻞ ” یاد کریں کیونکہ یوسف علیہ السلام اپنی عفت و پاکدامنی کی بناء پر عزیز مصر بن گئے تھے۔ اور موسی علیہ السلام کے حسن تعامل کی بناء پر اللہ نے انہیں نیک بیوی اور پر امن رہائش عطاء فرمائی ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اختلاف کے باوجود بے نظیر اتحاد:

اختلاف کے باوجود بے نظیر اتحاد:

حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں بعض مسائل کا اختلاف رہا ہے ؛ مگر ایک دوسرے کے احترام میں کبھی فرق نہیں آیا ، کون نہیں جانتا کہ خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کے مسئلے میں صحابۂ کرام میں شدید اختلاف ہوا اور اس کی بنا پر جنگ بھی ہوئی ؛ مگر کیا مجال کے ان کے اس اختلاف سے ایک دوسرے کے احترام میں فرق آجائے ۔ چناںچہ عین جنگ کے موقعے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو روم کی عیسائی سلطنت کی طرف سے جس کا سربراہ ’’ قیصر ‘‘ تھا خط ملا ۔ اس میں لکھا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے امیر ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور تم پر ظلم کر رہے ہیں ، اگر آپ چا ہیں ؛ تو ہماری فوج آپ کی مددکو بھیچ دیں گے ۔ اگر ہم آپ کی جگہ ہو تے ، تو مخالف کی تو ہین و تذلیل اور اس کو شکست دینے کے لیے فوج منگوالیتے ۔ مگر گوش ہوش سے سننے کے قابل ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیصر روم کو جواب یہ دیا : ’’ اے نصرانی کتے ! تو ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ؟ ! یاد رکھ اگر تو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ترچھی نگاہ سے بھی دیکھا ، تو سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا سپا ہی بن کر تیری آنکھ پھوڑنے والا میں ہوں گا ۔ ‘‘ ایسے سینکڑو ں واقعات ہیں ، یہاں مثال کے طور پر ایک نقل کیاگیا ہے ، غرض یہ ہے کہ امت کے اتحاد کے لیے لا زم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام اور اکرام کریں اور اپنے اختلا فات کو حدود سے آگے نہ بڑھنے دیں اور آپس میں حسنِ سلوک کا معاملہ کریں ۔ (واقعات پڑھئے اور عبرت لیجئے)