رشتہ ڈھونڈنے کی ظالمانہ رسم

ہمارے معاشرے میں اپنے بیٹے یا بھائی کے لئے جب رشتہ ڈھونڈا جاتا ہے تو لڑکی کی خوبصورتی ، لڑکی کی شرافت ، لڑکی کے کام کاج ، لڑکی کا رہن سہن ، لڑکی کی تعلیم ، لڑکی کا خاندان ، لڑکی کا جہیز ، لڑکی کا جائیداد میں حصہ لڑکی کی پیدائش سے اسکی جوانی تک کی ہسٹری جس کی گواہی بھی شرط اور لڑکے کے لئے صرف اسکی نوکری ہونا ہی بہت ہے نہ شکل و صورت اہم نہ کردار اہم ، نہ چال چلن اہم ، نہ اسکے دوست احباب اہم ، نہ اسکا گھر والوں سے رابطہ تعلق اہم ، نہ اسکے عشق معاشقے اہم ، بس ایک نوکری اسکے 100 عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کسی کی بیٹی بہن کے گھر جب دیکھنے جاتے ہیں تو پہلے کہلوا بھیجتے ہیں کہ لڑکی دیکھنے آرہے ہیں وہاں لڑکی کے دل پر کیا گزرتی ہے جو دل و دماغ میں مرتی تڑپتی دعائیں مانگتی سوچتی پاگل ہوتی ہے کیا ہوگا ؟ میں پسند آوں گی یا نہیں ؟ پسند نہ آئی تو لوگ کیا کہیں گے ؟ پسند آ بھی گئی تو وہ لوگ کیسے ہوں گے ؟ وہ لڑکا کیسا ہو گا جیسے ہزاروں سوالات۔ اور اوپر سے جہالت یہ کہ وہ لوگ دوسروں کی بہن بیٹیوں کو بلاتے ہیں انکو بھی چلنے کے لئے کہا جاتا ہے ، جیسے منڈی میں بھیڑ بکریوں کو کچھ قدم چلا کر پسند کیا جاتا ہے ، اسکے کمرے کو جا کر دیکھتے ہیں انکے گھر کھا پی کر پھر واپس اپنے گھر پہنچ کر ایک میسج بھیج دیتے ہیں معاف کرنا ہمیں لڑکی پسند نہیں !! ان جیسے لوگوں کو تیل کی گرم کڑھائی میں ڈال دینا چاہئے ظالمو !!! ایک نہیں 10 بار رشتہ نہ کرو مگر وہاں لڑکی دیکھنے کسی بہانے سے بھی جایا جا سکتا ہے جب تک پسند نہ آئے رشتے کی بات نہ کیا کرو وہ لڑکی ہے فرشتہ نہیں ؟ پری نہیں؟ ایک سادہ سی معصوم سی انسان ہے ، جس کے کچھ جزبات ہیں ، کچھ خواب ہیں ، اسکی بھی کوئی عزت نفس ہے۔ خدارا اپنے چاند سے بیٹوں کے لئے پریاں ضرور ڈھونڈیں مگر کسی کی بہن بیٹی پر عیب لگا کر نہیں کسی کی آہ لے کر نہیں کسی کی بد دعاء لے کر نہیں ! ___________📝📝📝___________ منقول۔ انتخاب : اِسلامک ٹیوب ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

نا جائز آمدنی کا عبرتناک انجام:

نا جائز آمدنی کا عبرتناک انجام:

ایک وکیل صاحب عدالتوں میں لوگوں کی پہلی ترجیح ہوتے تھے ۔ فیس لاکھوں میں تھی ... بڑے بڑے مجرموں کو بری کروالیا کرتے تھے ... آئیے ! اب ان کا عبرتناک انجام پڑھئے... پھر وقت بدلتا ہے اس کی عمر ڈھل جاتی ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے ۔ آنکھوں کی بینائی اس حد تک کم پڑ جاتی ہے کہ سامنے کھڑی اپنی سگی بیٹی تک کو نہیں پہچان سکتا .. سارا روپیہ پیسہ اولاد بانٹ لیتی ہے... بیٹے اپنی بیویوں اور بچوں کو لے کر یورپ سیٹ ہو جاتے ہیں ... وکیل صاحب گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔ اولاد چونکہ مظلوموں کی دھوکے سے ہتھیائی گئی دولت پر پلی بڑھی یا ظالموں کے ظلم چھپانے کے لئے دی گئی دولت پر جوان ہوئی ہوتی ہے ... لہذا اس میں مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ... باپ کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا ۔ پھر متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ والد صاحب کیلئے ۲۴ گھنٹے کا ملازم اور ایک سکیورٹی گارڈ کا انتظام کیا جائے ... ظالموں کیلئے ڈھال بن کر مظلوموں کو انصاف کی دہلیز سے خالی ہاتھ واپس موڑ دینے والا وکیل یوں ملازمین کے سہارے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ان کا بڑا بیٹا بیوی بچوں کے ہمراہ اپنی نسبتی بہن کی شادی پر پاکستان آیا ہوا تھا ... رشتہ داروں نے اس کو شرمندہ کر کے اپنے والد کو ملنے پر مجبور کر دیا ... وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اپنے باپ کو ملنے اس کے گھر چلا آیا ... ان کے باپ کے کمرے سے شدید بدبو آ رہی تھی کیونکہ کئی بار رات کو اٹھ کر ٹائلٹ نہیں جا پاتے تھے .. ملازمین کو آواز دیتے تو وہ سنی ان سنی کر دیتے اور یوں پیشاب بستر پر ہی نکل جاتا تھا ... بستر دھونا تو دور کی بات ملازمین بستر بدلنا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے ... یوں وکیل صاحب اسی بدبو دار گیلے بستر پر پڑے زندگی گزارنے پر مجبور تھے ... جب ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا تو ناک پر رومال رکھ کر بنا باپ کو ملے ہی واپس مڑ گیا ... چونکہ اُن کو نظر نہیں آتا تھا لہذا ان کا بیٹا باہر گیا اور سکیورٹی گارڈ کو سمجھا بجھا کر کمرے کے اندر داخل کیا ... ملازم نے جا کر بوڑھے وکیل کو گلے لگا لیا اور بوڑھا بیچارا نوکر کو ہی اپنا بیٹا سمجھ کر چومتا رہا ... بعد ازاں ملازمہ اور اس کے بچے وکیل صاحب کی بہو اور پوتے پوتیاں بن کر ان کو ملتے رہے ... وکیل صاحب انہیں اپنا خون سمجھ کر دعائیں دیتے رہے۔ انکے بیٹے نے تو باپ کے قریب جانا بھی مناسب نہیں سمجھا.. بیٹے کے اس طرح کا رویہ اپنانے میں کسی اور کا نہیں بلا شبہ وکیل صاحب کا اپنا ہی ہاتھ تھا۔ سب سے پہلی چیز یہ سمجھ آئی کہ مال اور اولاد آزمائش اور فتنہ کیسے بنتے ہیں؟... دوسری چیز یہ سمجھ آئی کہ پیشہ کوئی بھی اپناؤ مگر کبھی ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہوں ... یقینا یہ کام وکیل صاحب نہیں کر سکے۔ مگر میری خواہش ہے کہ اس سچے واقعہ کو پڑھنے والے لوگ ضرور ان حقائق کا خیال کریں قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے ... وکیل صاحب کا وقت تو گزر گیا مگر ہمارا اور آپ کا وقت ابھی موجود ہے۔ (ماہنامہ محاسن اسلام ستمبر/ص:۱۱) (من جانب : Islamic Tube)