پرہیز گار استاد اور سمجھ دار شاگرد

حضرت حکیم الامت تھانوی اور حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی نور اللہ مرقدهما دونوں نے یہ واقعہ نقل کیا کہ ایک پرہیز گار عالم بچوں کو پڑھاتے تھے ایک دن ان کے گھر میں فقر و فاقہ تھا بھوک کی شدت سے ان کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا جو طلبہ پڑھنے کو آتے اُن میں سے ایک طالب علم نے محسوس کر لیا کہ حضرت کے یہاں شاید فاقہ ہے اس نے کہا کہ حضرت ابھی آتا ہوں اور چلا گیا تھوڑی دیر میں اپنے گھر سے کھانا لیکر آیا کہ حضرت یہ کھا لیجئے پھر پڑھائیے تو عالم صاحب نے کہا کہ بیٹا واقعی بھوک کا تقاضہ تو ہے مگر اب میں نہیں کھا سکتا کیونکہ مجھے اشراف نفس ہو گیا جب تم جانے لگے تو میرے دل نے کہا کہ شاید لڑکے نے پہچان لیا ہے اب یہ کھانا لیکر آئیگا ویسے ہی تم لائے ہو تو بتاؤ یہ اشراف ہوا کہ نہیں اور اس کا کھانا کیسے جائز ہوگا یہ سننا تھا کہ طالب علم کھانا لیکر واپس ہو گیا کہ ٹھیک ہے آپ کو تو یہ جائز نہیں اب استاد نا امید ہو گئے مخلوق سے توجہ ہٹ گئی دل اللہ کی طرف رجوع ہو گیا کہ مولی اب تو آپ ہی کھلانے والے ہیں تھوڑی ہی دیر گذری تھی پھر وہ طالب علم کھانا واپس لا کر کہنے لگا کہ حضرت اب تو اشراف نہیں رہا اللہ ہی آپ کو کھلا رہا ہے کھا لیجئے استاد بہت خوش ہوے اور کہا کہ جزاک اللہ واقعی تیری سمجھ قابل تحسین ہے اس کو قبول کر لیا۔ یہ واقعہ سنا کر حضرت والد ماجد نور اللہ مرقدہ فرماتے کہ آج کے طلبہ نہ استاد کا حال دیکھتے ہیں نہ کچھ لاتے ہیں ہاں اگر کوئی لاتا اور اشراف کے تحت کوئی استاد واپس کرتا تو وہ خوش ہی ہو جاتا چلو چھٹی ہوگئی ۔ واقعی دین کی سمجھ بہت بڑی چیز ہے۔(معارف رحیمی: شیخ الحدیث حضرت مولانا شاہ محمد ذاکر رحیمی نور اللہ مرقدہ)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

رزق کا مالک کون؟

رزق کا مالک کون؟

✍🏻ملازم بڑا ہی تابعدار تھا۔ مالک نے خوش ہو کے اس کی پانچ ہزار تنخواہ بڑھا دی۔ تابعداری میں فرق نہیں آیا لیکن وہ بہت زیادہ مشکور بھی نہیں ہوا۔ مالک کو بڑا غصہ آیا کہ میں نے اس کی تنخواہ بڑھائی لیکن یہ ہے کہ اچھے سے شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔ اس نے اگلے ماہ تنخواہ پانچ ہزار کم کر دی۔ ملازم کی ‏تابعداری اب بھی وہی رہی کوئی شکایت نہیں کی۔ مالک نے اسے بلوا بھیجا اور کہا، "بڑے عجیب انسان ہو، میں نے تمھاری تنخواہ پانچ ہزار بڑھائی، پھر کم کر دی۔ تم جوں کے توں رہے۔ یہ سب کیا ہے؟" ملازم بولا، "اوہ! آپ نے خود کو رازق سمجھ لیا تھا؟ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس سے اگلے دن آپ نے تنخواہ پانچ ‏ہزار بڑھا دی۔ میں سمجھ گیا کہ جس خالق نے بچہ دیا اسی نے رزق کا انتظام بھی ساتھ ہی کر دیا ہے، سو اسی کا شکریہ ادا کیا۔ پھر جس دن میری والدہ وفات پا گئیں اسی دن آپ نے تنخواہ کم کر دی۔ میں نے جان لیا کہ وہ اپنا رزق اپنے ساتھ لے گئیں سو تب بھی اللہ کا شکر ادا کر کے مطمئن رہا۔" 🖋️پھر بولا، "صاحب، ‏یہ روزی روٹی کے فیصلے کہیں اور ہی ہوتے ہیں۔ ہم تو بس مہرے ہیں جنہیں آگے پیچھے کرکے اسباب پیدا کیا جاتے ہیں۔"