معاملات و معاشرت

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : كَانَ فِرَاشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ وَحَشْوُهُ مِنْ لِيفٍ(بُخاری شریف:٦٤٥٦)

ام المومنین حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کا بستر (توشک) چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔(نصر الباری)

Naats

Download Videos

اہم مسئلہ

اگر کوئی شخص ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک بلا ٹکٹ سفر کرے، جو جائز نہیں ہے، تو اسے چاہیے کہ جتنی دفعہ اس نے بلا ٹکٹ سفر کیا ، اتنی دفعہ کرایہ کا حساب لگا کر ٹکٹ خرید لے اور ضائع کر دے، اس طرح ان شاء اللہ اس کا ذمہ فارغ ہو جائے گا، کیوں کہ اس صورت میں حق ، صاحب حق کو پہنچ جاتا ہے۔(اہم مسائل/ج:۵/ص:۲۳۲)

عذاب ادنی عذاب اکبر کی یاددہانی کا ذریعہ

اللہ ﷻ کے عذاب دو ہیں اکبر اور ادنی۔ عذاب اکبر آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا ۔ اس کے مقابلہ میں عذاب ادنیٰ ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں ۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں ، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت ، المناک حادثے ، نقصانات ، ناکامیاں وغیرہ ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان ، زلزلے ، سیلاب ، وبائیں ، قحط ، فسادات ، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں ۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا ۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک حاکم و سلطان کی فرمانروائی کا احساس دلاتی ہیں ۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے ۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے ۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے ، اور نہ کسی جن ، یا روح ، یا دیوی اور دیوتا