تہذیب الاخلاق

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَمِّرُوا الْآنِيَةَ ، وَأَجِيفُوا الْأَبْوَابَ ، وَأَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ ، فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا جَرَّتِ الْفَتِيلَةَ ، فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ الْبَيْتِ (بُخاری شریف : ۶۲۹۵)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: برتن کو ڈھانک دو، اور دروازوں کو بھیڑ دو، اور چراغوں کو بجھا دو، اس لئے کہ چھوٹا شرارتی (چوہا) کبھی بتّی گھسیٹتا ہے، پس گھر والوں کو جلا دیتا ہے(تحفۃ القاری)

آیۃ القران

اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۔(۳۸)(سورۃ الفاطر)

بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ بیشک وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو خوب جانتا ہے۔(۳۸)(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

علم دین سونا ہے، اس سونے پر اہل اللہ کی صحبت کا سہاگہ لگنے سے نکھار آجاتا ہے

ایک بار مظاہر العلوم کے علماء نے حضرت حکیم الامت رحمت اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کے علم میں اتنی برکت کیوں ہے؟ کیا آپ کتب بینی زیادہ کرتے ہیں؟ فرمایا کہ ہم نے کتابیں وہی پڑھی ہیں جو آپ نے پڑھی ہیں مگر ہم نے کتب بینی سے زیادہ قطب بینی کی ہے ـ علمِ دین حاصل کرنا تو ضروری ہے ورنہ آدمی جاہل رہتا ہے لیکن علمِ دین کے سونے پر اہل اللہ کی صحبت کا سہاگہ لگنے اس پر نکھار آتا ہے ـ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک اپنی مناسبت کا کوئی مربی اور شیخ تلاش کرے،ان سے باضابطہ اصلاحی تعلق کرے اور ان سے کوئی ذکر پوچھ لے ـ حکیم الامت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ کے پاس رہنا ایسا ہے جیسا آگ کے سامنے بیٹھنا لیکن جب وہاں سے دور بیوی بچوں کے پاس جاؤ گے،ٹھنڈے ہوجاؤ گے ، اس لئے فرمایا کہ شیخ سے ذکر کا کشتہ لے لو شیخ سے دور جاکر بھی گرم رہو گے جیسے اجمل خان ململ کا باریک کرتہ پہن کر جاڑے میں تانگے پر بیٹھ کر ایک گھنٹہ فجر سے پہلے دلی کی سیر کرتے تھے کیونکہ وہ کشتہ کھاتے تھے تو فرمایا کہ اللہ کے نام کا کشتہ سیکھ لو تو شیخ سے دور ہوکر بھی اپنے ملکوں میں، اپنے گاؤں میں گرم رہو گے یعنی ایمان و عمل کے ساتھ رہو گے ـ

Naats

اہم مسئلہ

بسا اوقات بس یا ٹرین کے ذریعہ سفر میں کوئی آدمی ہمارے ساتھ سفر میں ہوتا ہے، اس کی منزل آنے پر وہ اترتا ہے، اور اس کا کوئی سامان وغیرہ ہمارے پاس رہ جاتا ہے، اور ہم اس کو نہ جانتے ہیں اور نہ ہمیں اس کا پتہ ہوتا ہے ، تو اس سامان کا حکم ہے، یہ ہے کہ جب تک یہ خیال ہو کہ وہ شخص سامان کی تلاش میں ہوگا ، اس وقت تک اسے تلاش کیا جائے ، اور جب ملنے سے مایوسی ہو جائے تو اسے صدقہ کر دیا جائے ، یا خود مستحق ہو تو اسے استعمال کرلے۔ (اہم مسائل/ج:۴/ص:۱۸۶)