آیۃ القران

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)(سورۃ البقرہ)

جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے، اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔(۲۶۱)(آسان ترجمۃ القران) یعنی: اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں، واضح رہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کا قرآن کریم نے بار بار ذکر کیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اس میں زکوٰۃ صدقات اور خیرات سب داخل ہیں۔(آسان ترجمۃ القران)

جب آنکھیں کھلیں گی

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ(بُخاری شریف: ۱۱۹۰)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز مسجد حرام کے سوا تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے ۔

Download Videos

تحقیق المسائل

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔ اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔ جواب: یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منت

Naats

اہم مسئلہ

اقامت کے جواب کا طریقہ جس طرح زبان سے اذان کا جواب دینا مستحب ہے، اسی طرح اقامت کا جواب دینا بھی مستحب ہے، مکبر جو کلمہ کہے جواب دینے والا بھی دو وہی کلمہ کہے، البتہ حی علی الصلوۃ “ اور ”حی علی الفلاح میں ” لا حول ولا قوة إلا باللہ کہے، اور ” قد قامت الصلوۃ کے جواب میں ” اقامہا اللہ و ادامہا“ کہے، ہم سب کو اس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے ، نہ یہ کہ اقامت کے وقت ادھر اُدھر کی باتوں میں مشغول ہوں ۔(اہم مسائل/ج:۶/ص:۵۲)