آیۃ القران

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۱۷۵)(سورۃ الشعراء)

اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے بڑا مہربان بھی۔(۱۷۵)(آسان ترجمۃ القران)

روح المعانی فی تفسیر القران العظیم جلد ٢٥

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ ، فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ : كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : إِذَا أُسْنِدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ(بُخاری شریف: ۶۴۹۶)

حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو اس نے عرض کیا امانت ضائع کرنے کی کیا صورت ہوگی یا رسول الله ؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا جب کام نا اہلوں کے سپرد کئے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔(نصر الباری)

Download Videos

قانون توڑنا جائز نہیں

آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱؁ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،

Naats

اہم مسئلہ

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ناپاک کپڑا دھو کر جب تک سوکھ نہ جائے وہ پاک نہیں ہوتا اس میں نماز نہیں ہوتی ، یہ خیال بالکل غلط ہے، کپڑا دھونے کے بعد پاک ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ نماز بھی درست ہے اگر چہ کپڑا تر ہی کیوں نہ ہو۔ (اہم مسائل/ج:۲/ص:۴۸)