زکوۃ کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا

حدیث الرسول ﷺ

سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ يَنْقُلُ مَعَنَا التُّرَابَ، وَلَقَدْ وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ بَطْنِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: وَاللهِ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، إِنَّ الْأُلَى قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا - قَالَ: وَرُبَّمَا قَالَ: إِنَّ الْمَلَا قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا - إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا، وَيَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ(مسلم شریف:کتاب الجہاد)

حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (غزوہ) احزاب کے دن ہمارے ساتھ مٹی اٹھارہے تھے اور مٹی کی وجہ سے آپ ﷺ کے پیٹ کی سفیدی اٹھی ہوئی تھی اور آپ ﷺ فرمار ہے تھے اللہ کی قسم (اے اللہ !) اگر تو ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم نہ صدقہ دیتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے (اے اللہ!) ہم پر سکینت نازل فرما کیونکہ ہم پر دشمن (اکٹھے ہو کر) ٹوٹ پڑے ہیں راوی کہتے ہیں کہ کبھی آپ ﷺ فرماتے ۔ کافروں نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے اور جب وہ فتنہ و فساد کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں اور اس وقت آپ ﷺ کی آواز بلند ہوتی(تفہیم المسلم)

آیۃ القران

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲)(سورۃ یونس)

یا درکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ (۶۲)(آسان ترجمۃ القران) یعنی : اللہ کے دوست کی تشریح اگلی آیت میں کردی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقوی کی صفات رکھتے ہوں۔ ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انہیں نہ آئندہ کا کوئی خوف ہوگا، اور نہ ماضی کی کسی بات کا کوئی غم ہوگا۔ کہنے کو یہ مختصر سی بات ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ دنیا میں اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ دنیا میں ہر انسان کو، خواہ وہ کتنا خوشحال ہو، ہر وقت مستقبل کا کوئی نہ کوئی خوف اور ماضی کا کوئی نہ کوئی رنج پریشان کرتا ہی رہتا ہے۔ یہ نعمت صرف جنت ہی میں حاصل ہوگی کہ انسان ہر طرح کے خوف اور صدمے سے بالکل آزاد ہوجائے گا۔(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

​​​​اے اہل دنیا ! تم کو لحد یاد ہے ؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اے اہل دنیا! جان لو کہ تم کو بھی ایک دن مرنا ہے ـ موت کے بعد اٹھنا اور اپنے نیک و بد اعمال کی جزا اور سزا کو پہنچنا ہے ـ پس دنیا کے چند روز جینے پر مت پھولو اور موت کو کبھی نہ بھولو ـ دنیا مصیبت کا گھر ہے ـ فنا ہونا اس کا مشہور ہے اور دھوکہ اس کا شعار ہے ـ اس کی ہر ایک چیز کا انجام زوال ہے اور اس کا ہمیشہ کسی کے پاس رہنا محال ہے ـ جب آدمی کو اس میں تھوڑا آرام آتا ہے تو اس کے عوض برسوں کا رنج سامنے آتا ہے ـ موت ہر ایک کے سر پر قائم ہے اور اس کا ذائقہ چکھنا سب کو لازم ہے ـ خدا تعالٰی کے بندو! آج تمہارا دنیا میں ایسا حال ہے جیسا تم سے پہلے لوگوں کا تھا جو تم سے عمر میں ذیادہ، طاقت میں قوی، آبادی کثیر اور مکانات میں اعلٰی تھے ـ مگر زمانہ کے انقلاب سے آج ان کی آواز بھی نہیں نکلتی ـ ان کے جسم قبروں میں سڑ گئے، شہر اجڑ گئے اور مکانات گر گئے ـ یا وہ محالت ( محلات) عالیشان گاؤ تکیے اور مخملی فرش تھے یا اب پتھر اور اینٹیں، خاک گور اور گوشئہ لحد ہے ـ کیا تمہیں کچھ شبہ ہے کہ جیسا اُن کا حال ہوا وہی تمہارا نہ ہوگا ؟وہی تنہائی نہ ہوگی اور وہی خاک میں یہ جسم کیڑوں کی خوراک نہ ہوگا ؟؎ سنورتے تھے کہ اک عالم کی آنکھیں ہم کو دیکھیں گی خبر کیا تھی ہماری مجلسیں ماتم کو دیکھیں گی! ستم ہے جامہ ہستی کا اس تن سے جدا ہونا لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہوکر! جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹی ہے زندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے نظر غور سے جو دنیا کی حالت دیکھی برپا ہم نے ہر روز یہاں کی قیامت دیکھی

Naats

اہم مسئلہ

تیجہ ، دسواں اور چالیسواں کرنا کیسا ہے؟ بعض علاقوں میں میت کے ایصال ثواب کے لیے تیجہ، ساتواں، دسواں ، چالیسواں ، ششماہی اور سالانہ کا کھانا پکا کر کھلایا جاتا ہے، شرع اسلامی میں اس کی کوئی اصل نہیں، شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب ” جامع البرکات میں تحریر فرماتے ہیں کہ بہتر آنست کہ نہ خورد بہتر یہ ہے کہ اس طرح کا کھانا نہ کھائے۔اگر کسی کو ایصالِ ثواب کرنا ہی ہو تو شرعی طریقے پر کریں نہ اس میں کھانوں کی قید ہو اور نہ ہی دن مخصوص کئے جائیں ، جو کچھ حسب وسعت میسر آئے غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیں، رسم فاتحہ اور قل خوانی وغیرہ بدعت ہیں۔(اہم مسائل/ج:۲/ص:۳۹)