عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ، وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ "(بُخاری شریف ۶۲۳۱)
نبی ﷺ نے فرمایا: ”چھوٹا بڑے کو سلام کرے، اور گزرنے والا بیٹھے ہوؤں کو سلام کرے، اور تھوڑے زیادہ کو سلام کریں“ (تھوڑے تھوڑے ہونے کی وجہ سے ادنی ہیں، پس وہ زیادہ کو سلام کریں)(تحفۃ القاری)
Fans
Fans
Fans
Fans
admin | 12 April, 2024
admin | 12 April, 2024
admin | 30 March, 2024
admin | 30 March, 2024
فَمَن٘ يَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرٗا يَرَهٗ (٧) وَمَن٘ يَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٖ شَرّٗا يَرَهٗ(٨)(سورۃ الزلزال)
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی ، وہ اُسے دیکھے گا (۷) اور جس نے ذرہ برابر کوئی بُرائی کی ہوگی ، وہ اُسے دیکھے گا (۸)(آسان ترجمۃ القران)
ابن ہبیرہ نے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ(¹) کو منصب قضا سونپنا چاہا، لیکن انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ـ امام ابو حنیفہؒ کے اس انکار پر اس نے قسم کھالی کہ اگر امام صاحب نے منصب قضا تسلیم نہیں کیا تو میں انھیں کوڑے لگاؤں گا اور پھر قید خانے میں ڈال دوں گا ـ امام ابو حنیفہؒ نے اس کی بارہا کوشش کے باوجود منصب قضا قبول کرنے سے انکار کردیا ، چنانچہ ابن ہبیرہ نے امام ابو حنیفہؒ کو اس قدر کوڑے لگائے کہ آپ کا منہ اور سر مار سے پھول گیا ـ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا : (( الضَّرْبُ بِالسِّیَا طِ فِی الدُّنْیَا أَھْوَن عَلَیَّ مِنَ الضَّرْبِ بِمَقَاطِعِ الْحَدِیدِ فِی الآخِرَۃِ )) " دنیا میں کوڑے کھالینا میرے لیے اس سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ آخرت میں مجھے لوہے کے گُرز کا سامنا کرنا پڑےـ" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (❶) امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ بہت بڑے عالم دین اور فقیہ تھے ـ وہ 80ھ/699ء میں "حدود" میں پیدا ہوئے ـ وہ کوفے میں خزّ (ریشمی کپڑا) بناتے اور اس کی تجارت کرتے تھے ـ امام ابو حنیفہؒ ، امام حمادؒ کے شاگرد تھے ـ ابن ہبیرہ کے بعد خلیفہ منصور نے انھیں قاضی بنانا چاہا مگر وہ آمادہ نہ ہوئے تو منصور نے 146ھ میں انھیں قید کردیا ـ انھوں نے بغداد میں قید ہی میں 150ھ/767ھ میں وفات پائی ـ امام یوسف،امام محمد،اور امام زفران کے نامور شاگرد تھےـ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ ج ۱ ص783-784)
شادیوں کے موسم میں بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جہاں کہیں منڈپ لگا ہوا ہے، کھانا جاری ہے، تو بیٹھ گئے ، کھانا کھا لیا اور چل دیئے، جب کہ انہیں نہ تو کھانے کی دعوت ہوتی ہے، اور نہ اجازت، اس طرح بغیر دعوت اور بغیر اجازت (صراحۃً یا دلالۃً ) کے کسی کے یہاں کھانا کھانا جائز نہیں ہے، اور غیرت و حمیت کے بھی خلاف ہے، حدیث پاک میںہے : ”جو شخص بغیر دعوت کے کھانے کے لیے گیا ، وہ چور بن کر داخل ہوا، اور لٹیر ابن کر واپس ہوا “ (مشكوة المصابيح : ص/۲۷۸، رقم الحدیث : ۳۲۲۲)(کتاب:درسی و تعلیمی اہم مسائل/ ص: ۴۶۰)