عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُ عَلَيْهِ بُرْدَيْنِ أَخْضَرَيْنِ (ابو داؤد:۴۰۶۵)
حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہرے رنگ کی دو چادریں تھیں۔(ابو داؤد مترجم)
Fans
Fans
Fans
Fans
admin | 12 April, 2024
admin | 12 April, 2024
admin | 30 March, 2024
admin | 30 March, 2024
الٓرٰ۔ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ(۱)(سورۃ ابراہیم)
الر۔ (اے پیغمبر) یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آؤ، یعنی اس ذات کے راستے کی طرف جس کا اقتدار سب پر غالب ہے، (اور) جو ہر تعریف کا مستحق ہے۔(۱)(آسان ترجمۃ القران)
ایک مرتبہ حضرت مدنی کی کسی صاحب نے دعوت کی ، اور کھانے کے ساتھ دیگر اشیاء کے ساتھ تھوڑی سی کھیر بھی تیار کی ،جب حضرت مدنی نے اس کھیر کو کھایا تو بہت کڑوی تھی ۔ ممکن ہے مغالطہ سے ایلوا وغیرہ کوئی کڑوی چیز اس میں گر گئی ہو۔ حضرتِ مدنی نے اس خیال سے کہ میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس کا دل دکھے گا، اس سے کھیر کے کڑوا ہونے کا ذکر نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ کھیر کی دیگچی لے آؤ ۔وہ اس کو لے آیا ۔ آپ نے کھانے میں شریک ہونے والے۔ ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کی یہ تمام کھیر میرے حصہ کی ہے آپ حضرات میں سے کوئی نہ کھائے ۔ چناچہ آپ نے وہ تمام کھیر اس انداز سے کھالی کہ میزبان اور تمام رفقاء یہ سمجھتے رہے کہ کھیر بہت اچھی لگی،لیکن جب میزبان نے دیگچی میں لگی ہوئی تھوڑی سی کھیر تبرکاً کھائی تو معلوم ہوا کہ کھیر تو بہت کڑوی تھی میزبان اور تمام رفقاء کو نہایت تعجب ہوا اور اُن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس بات سے کہ حضرت نے میزبان کی دل آسائی کے لئے اور اسے دل شکنی سے بچانے کے لئے شدید تکلیف برداشت کی کہ نہایت کڑوی کھیر ساری کھاگئے اور کسی کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا۔۔۔ یہ تھے ہمارے اکابرین
نماز میں کوئی واجب ترک ہو جائے تو کیا کرے؟ نماز میں کوئی واجب ترک ہو گیا ہو اور سجدہ سہو نہ کیا گیا ہو یا جو نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہو وہ واجب الاعادہ ہے، مگر اعادہ کا یہ حکم وقت کے باقی رہنے تک ہی ہے، وقت کے نکل جانے پر اعادہ کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے، اب اس کی مکافات استغفار کے ذریعہ کی جائے گی لیکن اگر وقت نکل جانے کے بعد اعادہ کر لیا جائے تو افضل ہے۔(اہم مسائل/ج:۲/ص:۱۰۵)