آیۃ القران

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ(۱۵)(سورۃ الجاثیۃ)

جو شخص بھی نیک کام کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، پھر تم سب کو اپنے پروردگار ہی کے پاس واپس لایا جائے گا(۱۵)(آسان ترجمۃ القران)

હયાતુસ્સાલીહાત ભાગ ૨

حدیث الرسول ﷺ

وَعَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: ”إِذَا اجْتَمَعَ الدَّاعِيَانِ فَأَجِبْ أَقْرَبَهُمَا بَابًا وَإِنْ سَبَقَ أَحَدُهُمَا فَأَجِبِ الَّذِي سَبَقَ“ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ(مشکوٰۃ المصابیح : باب الوليمہ)

حضرت نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص سے رایت ہے کہ بلا شبہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب دو دعوت دینے والے جمع ہو جائیں، تو اس کی دعوت قبول کرو جو ان میں سے دروازہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے، اور اگر ان میں سے ایک نے پہلے دعوت دی ہے، تو اس کی دعوت قبول کرو جس نے پہلے دعوت دی ہے ۔ (الرفیق الفصیح/ج:۱۶/ص:۳۷۳)

Download Videos

زبان کی حفاظت اسلاف امت کی نظر میں

سیدنا داؤد علیہ السلام فرماتے تھے: ” اگر بولنا چاندی ہے تو چپ رہنا سونا ہے ۔ (احیاء العلوم : ۳/ ۱۷۸) حضرت حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے مرتبے تک کیسے پہنچے؟ فرمایا: ” سچ بولنے اور فضول باتوں سے بچنے کی برکت سے پہنچا ہوں“۔ حضرت ابو بکر صدیق لا یعنی سے بچنے کے لئے منہ میں کنکریاں ڈال رکھتے تھے۔ (احیاء العلوم : ۱۷۹/۳) حضرت عمر بن الخطاب فرماتے ہیں کہ جو بہت بولتا ہے وہ بہت غلطیاں کرتا ہے، جو بہت غلطیاں کرتا ہے اس سے کثرت سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور جو بہ کثرت گناہ کرتا ہے اس کے لئے جہنم ہی زیادہ مناسب ہے ۔ (فیض القدیر : ٢٨٣/٦ ) حضرت حسن بصری فرماتے تھے: ” جو شخص اپنی زبان کی حفاظت نہیں کر سکتا وہ اپنے دین کی حفاظت نہیں کر سکتا“ ۔ (احیاء العلوم : ۱۷۹/۳)

Naats

اہم مسئلہ

اگر کوئی شخص اپنی قسم توڑ دے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا ، اور وہ یہ ہے : دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ، یا ان کو کپڑا دینا، یا ایک غلام آزاد کرنا ، ان تینوں میں اختیار ہے جس سے چاہے کفارہ ادا کرے، اور اگر ان تینوں میں سے کسی ایک پر بھی قدرت نہ ہو تو تین دن لگا تار روزے رکھے۔ بعض لوگ کھانا کھلانے یا کپڑا دینے پر قدرت کے باوجود اپنی قسم کا کفارہ تین روزے رکھ کر ادا کرتے ہیں ، اور یوں خیال کرتے ہیں کہ ان کا کفارہ ادا ہو گیا، جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ کفارہ ادا نہیں ہوا، کیوں کہ روزوں کے ذریعہ ادائیگی کفارہ صحیح ہونے کیلئے کھانا کھلانے ، اور کپڑا پہنانے سے عاجز ہونا شرط ہے۔ (اہم مسائل/ج:۳/ص:۲۰۶)