آیۃ القران

وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵)(سورۃ الذاریات)

اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے۔(۵۵)(آسان ترجمۃ القران)

Naats

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَتَّخِذُوا شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا(مسلم شریف:۱۹۵۶)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی روح والی چیز کو ( نشانہ بازی کا ) ہدف مت بناؤ ۔“

Download Videos

حضرت سلمان فارسی رضي اللہ عنہ کی نصیحتیں

حضرت جعفر بن برقان کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ حضرت سلمان فارسیؓ فرمایا کرتے تھے مجھے تین آدمیوں پر ہنسی آتی ہے اور تین چیزوں سے رونا آتا ہے ایک تو اس آدمی پر ہنسی آتی ہے جو دنیا کی امیدیں لگا رہا ہے حالانکہ موت اسے تلاش کر رہی ہے دوسرے اس آدمی پر جو غفلت میں پڑا ہوا ہے اور اس سے غفلت نہیں برتی جا رہی یعنی فرشتے اس کا ہر برا عمل لکھ رہے ہیں اور اسے ہر عمل کا بدلہ ملے گا تیسرے منہ بھر کر ہنسنے والے پر جسے معلوم نہیں ہے کہ اس نے اپنے رب کو خوش کر رکھا ہے یا ناراض - اور مجھے تین چیزوں سے رونا آتا ہے پہلی چیز محبوب دوستوں یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کی جدائی دوسری موت کی سختی کے وقت آخرت کے نظر آنے والے مناظر کی ہولناکی تیسری اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہونا جب کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہوگا کہ میں جہنم میں جاؤں گا یا جنت میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس دنیا میں مومن کی مثال اس بیماری جیسی ہے جس کا طبیب اور معالج اس کے ساتھ ہوں جو اس کی بیماری اور اس کے علاج دونوں کو جانتا ہو جب اس کا دل کسی ایسی چیز کو چاہتا ہے جس میں اس کی صحت کا نقصان ہو تو وہ معالج اسے اس سے منع کر دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے اس کے قریب بھی نہ جاؤ کیوں کہ اگر تم نے اسے کھایا تو یہ تمہیں ہلاک کر دے گی اسی طرح وہ معالج اسے نقصان دہ چیزوں سے روکتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہوجاتا ہے اور اس کی بیماری ختم ہو جاتی ہے اسی طرح مومن کا دل بہت سی ایسی دنیاوی چیزوں کو چاہتا رہتا ہے جو دوسروں کو اس سے زیادہ دی گئی ہیں لیکن اللہ تعالی موت تک اسے ان سے منع کرتے رہتے ہیں اور ان چیزوں کو اس سے دور کرتے رہتے ہیں اور مرنے کے بعد اسے جنت میں داخل کر دیتے ہیں۔(حیاۃ الصحابہ)

اہم مسئلہ

امتحان میں نقل کرنا یا کروانا امتحان کا مقصود، نصاب سے مطلوب، طلباء کی استعداد وصلاحیت کو جانچنا اور پرکھنا ہے، اس لیے کسی طالب علم کا بحالت امتحان کسی کی جوابی کاپی دیکھ کر نقل کرنا یا کروانا، یا اپنے ساتھ جوابی تحریر لے جانا، احکام انتظامیہ کی خلاف ورزی ممتحن کے ساتھ دھوکہ دہی، اور جھوٹ و خیانت جیسی عظیم قباحتوں کا موجب ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور سخت گناہ ہے۔ (اہم مسائل/ج:۱/ص:۱۶۲)