آیۃ القران

وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ۠(۳۴)(سورۃ النور)

اور ہم نے وہ آیتیں بھی اتار کر تم تک پہنچا دی ہیں جو ہر بات کو واضح کرنے والی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، اور وہ نصیحت بھی جو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے کارآمد ہے۔(۳۴)(آسان ترجمۃ القران)

mohabbat kiya hai

Naats

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ(مسلم:۹۸۶)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فطرانے کے بارے میں یہ حکم دیا کہ اسے نماز عید کی طرف لوگوں کے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے ۔

Download Videos

جو وقت کے فرعون اور ابوجہل سے نہ ٹکرائے

“جو وقت کے فرعون اور ابو جہل سے نہ ٹکرائے۔” کفر کو اس کی فکر نہیں کہ آپ مسجدوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں ، نمازیں پڑھیں یا لمبے لمبے اذکار کریں ، ممبروں پر فضائل سنائیں یا دروسِ قرآن و حدیث میں مشغول ہو جائیں ، رنگ رنگ کی پگڑیاں پہنیں ، یا ماتموں ، میلادوں کے جلوس نکالیں ، جمعراتیں ، شب راتیں منائیں یا محافل حمد و نعت کریں ۔ کفر چاہتا ہے آپ یہ سب شوق سے کریں ، مگر نظامِ کفر اور الحاد کے ماتحت رہ کر کریں اور اللہ کے نظام کے نفاذ کی بات نہ کریں ۔ آپ خانقاہیں بنائیں ، عرس منائیں ، اجتماعات کریں ، مگر اللہ کے نظام کی بالا دستی کی بات نہ کریں ، کفر کو حکومت کا اختیار دیں اور اسلام کو محکوم رہنے دیں ۔ کفر کے ایوانوں میں زلزلہ تو تب آتا ہے ، جب مسلمان قیام اجتماعی نظام کی سنت پر عمل کرتا ہے ۔ ایسا کوئی اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت نہیں ، جو وقت کے فرعون اور ابو جہل سے نہ ٹکرائے . عامر اعوان۔۔۔۔۔

اہم مسئلہ

لال مرچ اور کوئلہ رکھ کر گوشت بھیجنا۔ کچھ لوگ لال پیلا پانی ( پانی میں چونا اور ہلدی ملا کر ) انسان کے اوپر سے اتارتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ نظر اتارنے کے لیے جھاڑو کی کڑیاں اوپر سے اتار کر جلاتے ہیں، اور بعض لوگ باہر سے گوشت وغیرہ بھیجتے وقت ساتھ میں لال مرچ اور کوئلہ رکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ ساتھ رکھنے سے شیطان اور جن کا اثر نہیں ہوتا ، یہ چیزیں ناجائز اور توہمات باطلہ کے قبیل سے ہیں، ان سے مسلمانوں کو احتراز کرنا چاہیے۔(اہم مسائل/ج:۷/ص:۲۶)