آیۃ القران

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ(۱۵)(سورۃ الجاثیۃ)

جو شخص بھی نیک کام کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، پھر تم سب کو اپنے پروردگار ہی کے پاس واپس لایا جائے گا(۱۵)(آسان ترجمۃ القران)

mishari al eid

Naats

حدیث الرسول ﷺ

وَعَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: ”إِذَا اجْتَمَعَ الدَّاعِيَانِ فَأَجِبْ أَقْرَبَهُمَا بَابًا وَإِنْ سَبَقَ أَحَدُهُمَا فَأَجِبِ الَّذِي سَبَقَ“ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ(مشکوٰۃ المصابیح : باب الوليمہ)

حضرت نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص سے رایت ہے کہ بلا شبہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب دو دعوت دینے والے جمع ہو جائیں، تو اس کی دعوت قبول کرو جو ان میں سے دروازہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے، اور اگر ان میں سے ایک نے پہلے دعوت دی ہے، تو اس کی دعوت قبول کرو جس نے پہلے دعوت دی ہے ۔ (الرفیق الفصیح/ج:۱۶/ص:۳۷۳)

Download Videos

دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی :

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ اپنے کسی سفر میں روانہ ہوۓ، جب گرمی بہت محسوس ہوئی تو پگڑی منگوائی اور باندھ لی پھر فوراﹰ اتارڈالی ـ ان سے عرض کیا گیا: اے امیر المومنین! آپ نے اسے کیوں اتار دیا ہے؟ اس نے تو آپ کو گرمی سے بچانا تھا۔ فرمایا: مجھے کچھ اشعار یاد آ گئے تھے جن کو پرانے زمانہ کے لوگوں نے کہا ہے وہ اشعار یہ ہیں ۔ عربی اشعار کا ترجمہ : ❶ وہ آدمی جس کے چہرے کو دھوپ لگتی ہے یا غبار پڑتا ہے تو اس کے عیب دار اور پراگندہ ہونے سے ڈرتا ہے ـ ❷ اور سایہ ڈھونڈتا ہے تاکہ اس کی ترو تازگی قائم رہے ـ یہ عنقریب ایک دن قبر میں خاک آلود ہوگا ـ ❸ ایسے تاریک گڑھے میں غبار آلود اور وحشت میں ہوگا اور تحت الثری ( ساتوں زمینوں کے نیچے مقام سجین میں جہاں کافروں اور بدکاروں کی روحیں ڈالی جاتی ہیں، میں طویل عرصہ گزارے گا ـ (فائدہ) مذکورہ اشعار کے ساتھ علامہ ذہنی رح نے یہ شعر بھی ذکر کیا ہے : ترجمہ : اے نفس ردی ہونے سے پہلے ( آخرت کی) تیاری کرلے،جہاں تو نے ( ہر حال میں) پہنچنا ہے تو فضول نہیں پیدا کیا گیا ـ

اہم مسئلہ

اگر کوئی شخص اپنی قسم توڑ دے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا ، اور وہ یہ ہے : دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ، یا ان کو کپڑا دینا، یا ایک غلام آزاد کرنا ، ان تینوں میں اختیار ہے جس سے چاہے کفارہ ادا کرے، اور اگر ان تینوں میں سے کسی ایک پر بھی قدرت نہ ہو تو تین دن لگا تار روزے رکھے۔ بعض لوگ کھانا کھلانے یا کپڑا دینے پر قدرت کے باوجود اپنی قسم کا کفارہ تین روزے رکھ کر ادا کرتے ہیں ، اور یوں خیال کرتے ہیں کہ ان کا کفارہ ادا ہو گیا، جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ کفارہ ادا نہیں ہوا، کیوں کہ روزوں کے ذریعہ ادائیگی کفارہ صحیح ہونے کیلئے کھانا کھلانے ، اور کپڑا پہنانے سے عاجز ہونا شرط ہے۔ (اہم مسائل/ج:۳/ص:۲۰۶)