Muhammad Mustafa aaye bahar andar bahar aayi

Naats

آیۃ القران

وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا(۸)(سورۃ المزمل)

اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو، اور سب سے الگ ہو کر پورے کے پورے اسی کے ہو رہو۔ (۸)(آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَأَطْفِئُوهَا بِالْمَاءِ (بُخاری شریف : ۵۷۲۳)

نبی ﷺ نے فرمایا: بخار دوزخ کا جوش ہے، پس اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو ۔(تحفۃ القاری)

Download Videos

علم دین سونا ہے، اس سونے پر اہل اللہ کی صحبت کا سہاگہ لگنے سے نکھار آجاتا ہے

ایک بار مظاہر العلوم کے علماء نے حضرت حکیم الامت رحمت اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کے علم میں اتنی برکت کیوں ہے؟ کیا آپ کتب بینی زیادہ کرتے ہیں؟ فرمایا کہ ہم نے کتابیں وہی پڑھی ہیں جو آپ نے پڑھی ہیں مگر ہم نے کتب بینی سے زیادہ قطب بینی کی ہے ـ علمِ دین حاصل کرنا تو ضروری ہے ورنہ آدمی جاہل رہتا ہے لیکن علمِ دین کے سونے پر اہل اللہ کی صحبت کا سہاگہ لگنے اس پر نکھار آتا ہے ـ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک اپنی مناسبت کا کوئی مربی اور شیخ تلاش کرے،ان سے باضابطہ اصلاحی تعلق کرے اور ان سے کوئی ذکر پوچھ لے ـ حکیم الامت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ کے پاس رہنا ایسا ہے جیسا آگ کے سامنے بیٹھنا لیکن جب وہاں سے دور بیوی بچوں کے پاس جاؤ گے،ٹھنڈے ہوجاؤ گے ، اس لئے فرمایا کہ شیخ سے ذکر کا کشتہ لے لو شیخ سے دور جاکر بھی گرم رہو گے جیسے اجمل خان ململ کا باریک کرتہ پہن کر جاڑے میں تانگے پر بیٹھ کر ایک گھنٹہ فجر سے پہلے دلی کی سیر کرتے تھے کیونکہ وہ کشتہ کھاتے تھے تو فرمایا کہ اللہ کے نام کا کشتہ سیکھ لو تو شیخ سے دور ہوکر بھی اپنے ملکوں میں، اپنے گاؤں میں گرم رہو گے یعنی ایمان و عمل کے ساتھ رہو گے ـ

اہم مسئلہ

عصر کے بعد مجلس تلاوت میں یا کسی اور مجلس میں جب قرآن کریم کی تلاوت کی جا رہی ہو تو سامعین پر تلاوت قرآن کا سننا واجب ہے ، اور تلاوت قرآن کے وقت ہر ایسا مباح کام بھی ممنوع و نا جائز ہے، جو تلاوت کے سماع میں مخل ہو چہ جائیکہ قرآن کی تلاوت کے وقت دنیوی باتیں کرنا، اور موبائل سے گیم کھیلنا ، کیوں کہ فی نفسہ یہ دونوں باتیں مسجد میں ممنوع ہیں، اور تلاوت قرآن کے سماع میں مخل ہونے کی وجہ سے اس میں مزید قباحت و شناعت آجاتی ہے، اس لئے عام مصلیوں بالخصوص طلباء عزیز کو اس طرح کی باتوں سے احتراز کرنا لازم ہے۔(اہم مسائل/ج:۳/ص: ۲۷۷)