یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْحَمُ مَنْ یَّشَآءُ وَ اِلَیْهِ تُقْلَبُوْنَ(۲۱)(سورۃ العنکبوت)
وہ جس کو چاہے گا، سزا دے گا، اور جس پر چاہے گا رحم کرے گا، اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹا کرلے جایا جائے گا۔(۲۱)(آسان ترجمۃ القران)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ(مسلم:۱۰۸۰)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، انھوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے ، جب چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو اور جب اسے دیکھ لو تو روزے ختم کرو ، اگر تم پر بادل چھا جائیں تو اس کی گنتی پوری کرو ۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت مدنی کی کسی صاحب نے دعوت کی ، اور کھانے کے ساتھ دیگر اشیاء کے ساتھ تھوڑی سی کھیر بھی تیار کی ،جب حضرت مدنی نے اس کھیر کو کھایا تو بہت کڑوی تھی ۔ ممکن ہے مغالطہ سے ایلوا وغیرہ کوئی کڑوی چیز اس میں گر گئی ہو۔ حضرتِ مدنی نے اس خیال سے کہ میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس کا دل دکھے گا، اس سے کھیر کے کڑوا ہونے کا ذکر نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ کھیر کی دیگچی لے آؤ ۔وہ اس کو لے آیا ۔ آپ نے کھانے میں شریک ہونے والے۔ ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کی یہ تمام کھیر میرے حصہ کی ہے آپ حضرات میں سے کوئی نہ کھائے ۔ چناچہ آپ نے وہ تمام کھیر اس انداز سے کھالی کہ میزبان اور تمام رفقاء یہ سمجھتے رہے کہ کھیر بہت اچھی لگی،لیکن جب میزبان نے دیگچی میں لگی ہوئی تھوڑی سی کھیر تبرکاً کھائی تو معلوم ہوا کہ کھیر تو بہت کڑوی تھی میزبان اور تمام رفقاء کو نہایت تعجب ہوا اور اُن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس بات سے کہ حضرت نے میزبان کی دل آسائی کے لئے اور اسے دل شکنی سے بچانے کے لئے شدید تکلیف برداشت کی کہ نہایت کڑوی کھیر ساری کھاگئے اور کسی کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا۔۔۔ یہ تھے ہمارے اکابرین
سحری کا مستحب وقت۔ پوری رات یعنی غروب آفتاب سے صبح صادق تک کے درمیانی وقت کو چھ برابر حصوں میں تقسیم کر کے آخری حصہ میں سحری کھانا مستحب ہے، مثلاً ۱۲ گھنٹے کی اگر رات ہو تو آخری دو گھنٹوں میں سحری کھانا مستحب ہوگا۔(کتاب النوازل/ج:۶/ص:۳۳۹)