آیۃ القران

وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ وَ مَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖۤ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(۱۱)(سورۃ فاطر)

اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنادیا۔ اور کسی مادہ کو جو کوئی حمل ہوتا ہے، اور جو کچھ وہ جنتی ہے وہ سب اللہ کے علم سے ہوتا ہے۔ اور کسی عمر رسیدہ کو جتنی عمر دی جاتی ہے، اور اس کی عمر میں جو کوئی کمی ہوتی ہے، وہ سب ایک کتاب میں درج ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔(۱۱)(آسان ترجمۃ القران)

Adha idhar Adha udhar naat

Naats

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ مِنَ السُّنَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا وَأَنْ تَأْكُلَ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ(ترمذی:۵۳۰)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عید کے لیے پیدل جانا اور نکلنے سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے۔

Download Videos

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کڑوی کھیر کھاگئے

ایک مرتبہ حضرت مدنی کی کسی صاحب نے دعوت کی ، اور کھانے کے ساتھ دیگر اشیاء کے ساتھ تھوڑی سی کھیر بھی تیار کی ،جب حضرت مدنی نے اس کھیر کو کھایا تو بہت کڑوی تھی ۔ ممکن ہے مغالطہ سے ایلوا وغیرہ کوئی کڑوی چیز اس میں گر گئی ہو۔ حضرتِ مدنی نے اس خیال سے کہ میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس کا دل دکھے گا، اس سے کھیر کے کڑوا ہونے کا ذکر نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ کھیر کی دیگچی لے آؤ ۔وہ اس کو لے آیا ۔ آپ نے کھانے میں شریک ہونے والے۔ ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کی یہ تمام کھیر میرے حصہ کی ہے آپ حضرات میں سے کوئی نہ کھائے ۔ چناچہ آپ نے وہ تمام کھیر اس انداز سے کھالی کہ میزبان اور تمام رفقاء یہ سمجھتے رہے کہ کھیر بہت اچھی لگی،لیکن جب میزبان نے دیگچی میں لگی ہوئی تھوڑی سی کھیر تبرکاً کھائی تو معلوم ہوا کہ کھیر تو بہت کڑوی تھی میزبان اور تمام رفقاء کو نہایت تعجب ہوا اور اُن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس بات سے کہ حضرت نے میزبان کی دل آسائی کے لئے اور اسے دل شکنی سے بچانے کے لئے شدید تکلیف برداشت کی کہ نہایت کڑوی کھیر ساری کھاگئے اور کسی کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا۔۔۔ یہ تھے ہمارے اکابرین

اہم مسئلہ

نمازِ عیدین کا مسنون طریقہ ۔ عید کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اولاً یہ نیت کریں کہ میں قبلہ رو ہو کر اس امام کے پیچھے دو رکعت واجب نماز ادا کر رہا ہوں ، جس میں چھ زائد واجب تکبیریں بھی ہیں، دل سے مذکورہ نیت کرنے کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لیں ، ثنا پڑھیں ، اس کے بعد دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے معمولی فصل سے تین مرتبہ تکبیر کہیں، پہلی دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑتے رہیں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھیں اس کے بعد فاتحہ اور سورۃ ملائیں، پھر رکوع سجدہ کر کے رکعت مکمل کر لیں۔ دوسری رکعت میں اولاً فاتحہ و سورۃ پڑھنے کے بعد رکوع میں نہ جائیں بلکہ تین مرتبہ ہاتھ اٹھا کر تین تکبیریں کہیں اور درمیان میں ہاتھ نہ باندھیں ، اس کے بعد بغیر ہاتھ اٹھائے تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں اور بقیہ نماز حسب معمول پوری کریں ۔(کتاب النوازل/ج:۵/ص:۳۲۰)