یہ بے بسی کے عالَم میں اپنی ادنی سی کوشش کا اظہار ہے! یہ غزہ کے ایشو کو *ہائی لائٹ اور زندہ* رکھنے کے لیے اقدام ہے! یہ غزہ کے مظلوم بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہے! یہ عالمی دنیا کو غزہ پر ہونے والے سنگین ظلم کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ہے! یہ حسبِ استطاعت کچھ کر گزرنے کی ایک جھلک ہے! یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والوں کے دلوں پر ایک دستک ہے! یہ سنگین اسرائیلی مظالم کے خلاف ریکارڈ کیا جانے والا احتجاج ہے! یہ مسلم دنیا کو جھنجھوڑنے کی ادنی سی کاوش ہے! یہ عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی اک سعی ہے! یہ شعور کو بیدار کرنے اور بیدار رکھنے کی اک مہم ہے! یہ تاریخ میں اسرائیلی مظالم کو درج کرنے والا اک سیاہ باب ہے! سو آپ کیوں خاموش ہیں؟ آپ کیوں غافل ہیں؟ دعا کیوں نہیں کرتے؟ تعاون کیوں نہیں کرتے؟ آواز کیوں بلند نہیں کرتے؟ بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟ جو کچھ بس میں ہے وہ کرتے رہیے اور غزہ کے ایشو کو مسلسل *ہائی لائٹ اور زندہ* رکھیے، یہ وقت ایک اہم تقاضا ہے! ✍️۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علم کا بدصورت عاشق :

علم کا بدصورت عاشق :

اصل نام عمرو بن محبوب تھا ، ۱۶۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور جاحظ کے لقب سے معروف ہوئے ، عربی میں جاحظ اُسے کہتے ہیں جس کی آنکھوں کے ڈھیلے اُبھرے ہوں ۔ اوائل میں اس لقب کو ناپسند کرتے تھے ، رفتہ رفتہ خاموش ہو گئے ۔ شاید ہی کسی کی شکل کا یوں مذاق اڑایا گیا ہو ، کسی نے انہیں شیطان سے تشبیہ دی ہے اور کسی شاعر نے تو یونہی بھی کہا ہے : اگر خنزیر دوبارہ مسخ کر دیا جائے پھر بھی جاحظ سے کم ہی بدصورت ہوگا ۔ بادشاہ متوکل نے انہیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کرنا چاہا ، شکل دیکھی تو انکار کر دیا ۔ حالانکہ معتزلی فکر سے وابستہ تھے ، اس کے باوجود عربی ادب کے امام گردانے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : جاحظ نے جس کتاب کو پکڑ لیا اسے مکمل پڑھنے تک نیچے نہیں رکھا ۔ اکثر کتابوں کی دکانیں کرائے پر لے کر رات رات بھر پڑھتے رہتے تھے ۔ آخری عمر میں کافی بیماریوں کا شکار ہوئے ، آدھا جسم مفلوج ہو گیا ، یونہی پڑھنے میں مصروف تھے کہ ارد گرد پڑی کتابیں ان پر آگریں اور یوں علم کا بدصورت عاشق کتابوں کے قبرستان میں دفن ہو گیا ۔ (علی سنان)