نوحۂ غزہ پہلے ہمیں بھوک کی صلیب پر لٹکایا گیا پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسایا گیا اور پھر، جب ہڈیوں میں ہوا نے بھی پناہ لینا چھوڑ دی ہمیں راشن کی قطاروں میں لگایا گیا نہ شہری کہا گیا، نہ انسان بلکہ ہدف، جسے دھکیل کر ذلت کی مٹی میں دفن کرنا تھا۔ جب ایک تھیلا آٹے کا قسمت سے ہاتھ آیا تو سینے کو چِیرتی ایک گولی نے کہا: "یہ تمہارے نصیب کا نہیں، میری بندوق کی مشق کا حصہ تھا۔" اسرائیل نے اپنے کم سن فوجیوں کو غزہ کی گلیوں میں تعینات کیا نہ کسی دشمن فوج سے مقابلہ تھا نہ کوئی عسکری مورچہ بس ایک معصوم بچہ تھا جسے روٹی کی تلاش میں مارا گیا اور پھر خوشی سے کندھے پر تھپکی دی گئی "نشانہ بالکل درست لگا!" یہ وہ تربیت گاہ ہے جہاں انسانی جان صرف نشانہ بازی کی ایک مشق ہے جہاں بھوک، پیاس اور قطار میں کھڑا ہونا فلسطینی کا جرم اور سزا دونوں بن گیا ہے اے آسمانِ صبر! اب کب برسیں گے وہ آنسو جو زمین پر بارود بن کر ٹوٹیں؟ اے ملتِ خاموش! کیا تمہاری نیند ایک روٹی کے تھیلے سے سستی ہے؟ کیا تمہارے ضمیر کی قفل شدہ آنکھ غزہ کی ان بے کفن لاشوں سے بھی نہیں کھلتی؟ ہم مر رہے ہیں لیکن صرف جسم نہیں لفظ، آہ، چیخ! اور نوحے بھی شہید ہو رہے ہیں رہ گئی ہے تو صرف بندوق اور اس کا سیدھا ہوتا نشانہ… فلسطینی بچوں کے سینوں پر



