نوحۂ غزہ پہلے ہمیں بھوک کی صلیب پر لٹکایا گیا پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسایا گیا اور پھر، جب ہڈیوں میں ہوا نے بھی پناہ لینا چھوڑ دی ہمیں راشن کی قطاروں میں لگایا گیا نہ شہری کہا گیا، نہ انسان بلکہ ہدف، جسے دھکیل کر ذلت کی مٹی میں دفن کرنا تھا۔ جب ایک تھیلا آٹے کا قسمت سے ہاتھ آیا تو سینے کو چِیرتی ایک گولی نے کہا: "یہ تمہارے نصیب کا نہیں، میری بندوق کی مشق کا حصہ تھا۔" اسرائیل نے اپنے کم سن فوجیوں کو غزہ کی گلیوں میں تعینات کیا نہ کسی دشمن فوج سے مقابلہ تھا نہ کوئی عسکری مورچہ بس ایک معصوم بچہ تھا جسے روٹی کی تلاش میں مارا گیا اور پھر خوشی سے کندھے پر تھپکی دی گئی "نشانہ بالکل درست لگا!" یہ وہ تربیت گاہ ہے جہاں انسانی جان صرف نشانہ بازی کی ایک مشق ہے جہاں بھوک، پیاس اور قطار میں کھڑا ہونا فلسطینی کا جرم اور سزا دونوں بن گیا ہے اے آسمانِ صبر! اب کب برسیں گے وہ آنسو جو زمین پر بارود بن کر ٹوٹیں؟ اے ملتِ خاموش! کیا تمہاری نیند ایک روٹی کے تھیلے سے سستی ہے؟ کیا تمہارے ضمیر کی قفل شدہ آنکھ غزہ کی ان بے کفن لاشوں سے بھی نہیں کھلتی؟ ہم مر رہے ہیں لیکن صرف جسم نہیں لفظ، آہ، چیخ! اور نوحے بھی شہید ہو رہے ہیں رہ گئی ہے تو صرف بندوق اور اس کا سیدھا ہوتا نشانہ… فلسطینی بچوں کے سینوں پر

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

بادشاہ اور سیب فروش

بادشاہ اور سیب فروش

ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا ہوا تھا. جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا: *"سیب خریدیں! سیب!"* *حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے بازار جا رہا ہے۔حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا: خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لاؤ۔* *وزیر نے خزانے سے 5 سونے کے سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا: یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا: سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *محل کےمنتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا:* *یہ 2 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا:* *یہ 1 سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لاؤ۔* *سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا:* *دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے. اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ کو قید کر دوں۔* *سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا:* *میں نے غلطی کی ہے جناب !* *اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو !* *سپاہی نے سارے سیب لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم کو دے دیئے۔* *اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے منتظم کو دے دیئے اور کہا,* *کہ یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں۔* *افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کےمنتظم کو دیا، اس نے کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں۔* *محل کے منتظم نے آدھےسیب اپنے لیے رکھے اور آدھے وزیر کو دیے اور کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں۔* وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر اعلی کے پاس گیا اور کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں۔* *وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب لے کر حکمران کے پاس گیا اور کہا,* *کہ یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں۔* *حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔* *میرے ملک کے لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے۔* *اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی ہی چلی گئی۔* *فارسی ادب سے ماخوذ*