مرنے سے پہلے ابا جی کی زیارت : ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حضرت مولانا محمد علی جوہرؒ کی بیٹی بیمار ہوئی، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، جوان العمر بیٹھی تھی ماں نے پوچھا کوئی آخری تمنا کوئی آخری خواہش؟ کہا ابا جی کی زیارت کو جی چاہتا ہے ماں نے خط لکھوادیا، جوان العمر بیٹی کا خط پردیس میں ملا کہ میں اپنے عمر کی آخری گھڑیاں گن رہی ہوں، دل کی آخری تمنا ہے کہ ابا حضور تشریف لائیں تو میں آپ کا دیدار کرلوں کتنی بڑی بات تھی، حضرت کو وہ خط ملا حضرت مولانا محمد علی جوہرؒ نے اس خط کے پشت پر دو شعر لکھ کر وہ خط واپس بھیج دیا، بیٹی کو اس حال میں کیا جواب لکھافرماتے ہیں: میں تو مجبور ہوں اللہ تو مجبور نہیں تجھ سے میں دور ہوں وہ تو مگر دور نہیں تیری صحت ہمیں منظور ہے لیکن اس کو نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں یہ کیفیت نصیب ہوجائے تو زندگی کا مزہ آ جائے اللہ رب العزت ہمارے لیے اپنی یہ محبت آسان فرما دے ۔ آمین ( خطبات ص ۱۱۵ - ۱ ) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : اللہ کی محبت پیدا کرنے کا طریقہ صفحہ نمبر : ۹۴ تالیف : حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے سنت رسول کی پیروی کو اپنا شیوہ حیات بنالیا تھا۔ جوہر اقبال میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جس سے علامہ اقبال کے جذبہ شوق و اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معا ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سوکر زندگی گزار دی تھی ۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اسی بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا ، اور ایک چار پائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔ اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ (محمد حسنین سید۔ جوہر اقبال - ص 39-40، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی 1938)(ماہنامہ صدائے اسلام/ستمبر/۲۰۲۴)