*حمایت و مخالفت میں اللہ سے ڈریں* شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی اپنے والد ماجد مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی سوانح ’’میرے والد میرے شیخ‘‘ میں لکھتے ہیں:۔ ۔’’کسی شخص یا جماعت کی حمایت و مخالفت میں جب نفسانیت شامل ہو جاتی ہےتو نہ حمایت اپنی حدود پر قائم رہتی ہے نہ مخالفت ۔بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جس شخص کی حمایت کرنی ہو۔اسے سراپا بے داغ اور جس کی مخالفت کرنی ہواسے سراپا سیاہ ثابت کرنے سے کم پر بات نہیں ہوتی۔ آج کل حمایت و مخالفت میں اس قسم کے مظاہرے عام ہوچکے ہیں ۔بلکہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جوزمانے میں منظور نظر ہواتو اس کی ساری غلطیوں پر پردہ ڈال کر ،اسے تعریف و توصیف کے بانس پر چڑھا دیا گیا۔ اور جب وہی شخص کسی وجہ سے زیرعتاب آگیاتو اس کی ساری خوبیاں ملیامیٹ ہوگئیں۔اور اس میں ناقابل اصلاح کیڑے پڑگئے۔حضرت والد صاحب رحمہ اللہ اس طرز فکر کے سخت مخالف تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ طریق حق و انصاف کے خلاف ہے۔ ۔(حضرت والد صاحب کی نگاہ دُشمنوں اور مخالفین میں بھی اچھائیوں کو تلاش کرلیتی تھی اور ان کی خوبیوں کے برملا اظہار میں بھی آپ کو کبھی باک نہیں ہوا)بعض اوقات جب عام فضا کسی شخص یا جماعت کے خلاف ہو جاتی ہے۔ تو اس کے بارے میں الزام تراشی اور افواہ طرازی کو عموماً عیب نہیں سمجھا جاتا بلکہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اس کے عیوب کی خبریںلانے میں لطف محسوس کیا جاتا ہے اور اس میں تحقیق کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔حضرت والد صاحب ایسے مواقع پر اپنے متعلقین کو اس طرز عمل سےسختی کے ساتھ روکتے اور فرماتے کہ اگر ایک شخص کسی جہت سے بُرا ہے تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اس کی تمام جہات لازماً ہی بُری ہوں گی اور اب اس کی بے ضرورت غیبت اور اس کے خلاف بہتان تراشی جائز ہوگئی ہے۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

گھی چور ملازم

گھی چور ملازم

ایک بندہ کریانے کی ایک دکان پر ملازم تھا. وہ کسی نہ کسی بہانے دکان سے کچھ نہ کچھ چوری کرتا رہتا تھا. دکان کا مالک بڑا ہی خوش اخلاق اور امانتدار انسان تھا. وقت گزرتا گیا اور دس بارہ سال گزر گئے. اللہ نے مالک کو خوب برکت دی اور اس کی دکان شہر کی سب سے بڑی دکان بن گئی. روزانہ لاکھوں کی آمدن ہونے لگی. ایک دن اس ملازم کے گھر سے ٹفن میں کھانا آیا ہوا تھا. ملازم نے چوری سے ٹفن میں دیسی گھی ڈال دیا. اللہ کی شان کہ واپس لے جاتے ہوئے اس کے بچے سے ٹفن نیچے گر کر کھل گیا اور اس کی چوری پکڑی گئی. مالک کا بیٹا غصہ میں آ گیا اور ملازم کو برا بھلا کہنے لگا مگر مالک نے اپنے بیٹے کو سختی سے روک دیا اور کہا: " بیٹا! اسے چھوڑ دو. تمہیں آج پتہ چلا ہے کہ یہ چوری کرتا ہے مگر مجھے پچھلے بارہ سال سے معلوم ہے. اس کے باوجود میں نے اسے کبھی سمجھانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا. بس اتنا سوچو کہ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی روزانہ کی چوری کے باوجود بھی ہم کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور یہ بارہ سال چوری کرکے بھی آج تک ملازم کا ملازم ہی ہے." اسی طرح امانتدار انسان اپنی ایمانداری اور محنت کے ذریعے کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے مگر دھوکہ باز اور چور گندگی میں ہی پڑا رہ جاتا ہے. منقول!