👈🏻انوکھی مسکراہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🤓🤏🏻 "ذلیل" صاحب چائے لاؤں مشہور سندھی ادیب امر جلیل صاحب نے اسلام آباد میں ایک بنگالی باورچی رکھا۔ اب ظاہر ہے، بندہ کھانا زبردست بناتا تھا لیکن زبان کا ذائقہ کچھ الگ ہی تھا۔ جب بھی مہمان آتے، وہ نہایت عزت سے پوچھتا: "ذلیل صاحب! چائے لاؤں؟" مہمانوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی، اور جلیل صاحب کے ماتھے پر پسینہ۔ جلیل صاحب نے نرمی سے کئی بار سمجھایا، "بیٹا! میں جلیل ہوں… ذلیل نہیں!" لیکن بندہ پورے اعتماد سے ہر بار وہی: "ذلیل صاحب، کچھ اور تو نہیں چاہیے؟" جلیل صاحب تنگ آ گئے۔ آخر کسی اور بنگالی دوست نے مشورہ دیا، "مسئلہ یہ ہے کہ ہم بنگالی لوگ ج کو ز اور ز کو ج بولتے ہیں۔ آپ اپنا نام ذلیل لکھ کر دے دیں، وہ خود بخود جلیل کہنا سیکھ جائے گا۔" امید کی کرن چمکی۔ فوراً کاغذ پر لکھا: ذلیل اب تو کمال ہو گیا! جب بھی باورچی بلاتا، بولتا: "جلیل صاحب! چائے لاؤں؟" لیکن لہجہ کچھ ایسا طنزیہ سا ہوتا جیسے دل میں ہنسی دبا رہا ہو۔ اب جلیل صاحب کی مشکل دوگنی ہوچکی تھی کیونکہ: "پہلے وہ مجھے 'ذلیل' کہتا تھا لیکن سمجھتا جلیل تھا۔ اب وہ مجھے 'جلیل' کہتا ہے لیکن سمجھتا ذلیل ہے!