ایک عرب ڈاکٹر مذھبی اسکالر کی طالب علم کو اہم نصیحت

سوال کیا گیا: ابتدائی طالب علم کے لیے کوئی مختصر نصیحت؟ میں نے بارہا نصیحت کی ہے، مگر جانتا ہوں کہ ہر نصیحت کا پہلا مخاطب خود میرا دل ہے۔ لیکن شاید تکرار میں حکمت ہو اور فائدہ پہنچے: جان لو، اے میرے پیارے بیٹے، وہ زمانہ گزر چکا، جب علمِ روایت و درایت کا جامع عالم موجود تھا، جس کے پاس علم کے پیاسے سفر کرتے اور زانوئے ادب تہہ کرتے۔ وہ عہد اب تاریخ کے صفحات میں دفن ہو چکا ہے۔ آج کا دور مشکلات اور ابتلا کا دور ہے، جہاں نااہل پیشوا بن گئے ہیں، جاہل خطیب، قصہ گو واعظ، اور فریب کار لوگ نمایاں ہیں۔ معاملات ان لوگوں کے سپرد ہو چکے ہیں جو ان کے اہل نہ تھے، سوائے اُن کے جنہیں اللہ نے اپنی رحمت سے محفوظ رکھا۔ ایسے حالات میں، اے طالب علم، اپنے گھر کو اپنی پناہ گاہ بناؤ اور اپنی لائبریری کو اپنا دائمی قیدخانہ۔ اس میں خود کو اس وقت تک محصور کر لو، جب تک موت تمہیں آ نہ لے یا قریب نہ ہو جائے۔ لیکن یاد رکھو، اگر تم نے مطالعے کے لیے صحیح کتابوں کا انتخاب کیا، تو یہی قیدخانہ تمہارے لیے غارِ حراء بن جائے گا، جہاں سے نبوت کی روشنی چمکی اور زمین کو عدل و حق سے منور کر دیا۔ کتابوں کو تھام لو، کہ یہی تمہاری نجات کی کشتی ہیں۔ ان کے ذریعے تم علم و حکمت کے بحروں میں سفر کرو گے اور دنیا کے ان گوشوں تک پہنچو گے جہاں جہالت کے سائے چھائے ہیں۔ کبھی اپنی ذات کو کمتر نہ جانو اور اپنے وجود کو معمولی نہ سمجھو۔ جان لو کہ تم اور ایک عظیم شخصیت کے درمیان فرق صرف ارادے کی قوت اور مقصد کے تعین کا ہے۔ یاد رکھو، تاریخ میں ایسے ادوار بھی آئے ہیں جو ایک انسان کے نام سے منسوب ہو گئے، جیسے فولٹیر۔ پس، خود کو وہ شخص بناؤ جو تاریخ کا عنوان بن سکے۔ اپنے آپ کو وہ مہدی سمجھو جسے دنیا کی رہنمائی کرنی ہے، اور کسی دوسرے کے انتظار میں وقت ضائع مت کرو۔ اور یہ بھی یاد رکھو، اگر تم واقعی اپنے اساتذہ کے حق میں وفادار ہو، تو تم پر لازم ہے کہ اُن سے آگے کے فکری آفاق تک پہنچو، اُن منزلوں تک جاؤ جہاں اُن کے قدم نہ پہنچے، اُن جہانوں کو کھوجو جن کا اُنہوں نے تصور تک نہ کیا۔ اور خبردار، مایوس کرنے والوں اور جھوٹی باتوں کے پروپیگنڈہ کرنے والوں سے دور رہو۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

یتیموں کا مال۔۔۔نہایت عجیب واقعہ __؟؟

یتیموں کا مال۔۔۔نہایت عجیب واقعہ __؟؟

اردن میں گزشتہ دنوں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ نہایت ہی عجیب!!! ابوانس ایک نیک تاجر تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ جس کے جملہ اخراجات ابوانس پورے کرتا۔ کچھ عرصہ بعد ابوانس کا نوجوانی میں ہی انتقال ہوگیا۔ لواحقین میں نوجوان بیوہ اور ایک بیٹا انس رہ گیا۔ کچھ دن بعد ابوانس کا چھوٹا بھائی بھی اس کے گھر منتقل ہوا اور یہ آسرا دیا کہ مرحوم بھائی کی تجارت سنبھالنے کے ساتھ یتیم اور بیوہ کی کفالت بھی میں کروں گا۔ کچھ وقت تو معاملہ ٹھیک چلتا رہا۔ بعد میں اس کی نیت میں فتور آگیا۔ اس نے چھپکے سے ساری جائیداد اپنے نام کرائی اور راتوں رات سب کچھ فروخت کرکے امریکا بھاگ گیا۔ پیچھے یتیم اور اس کی ماں سڑک پہ آگئے۔ اس بدبخت نے امریکا جا کر گاڑیوں کا کاروبار سیٹ کردیا اور ایک گوری لڑکی سے شادی بھی کرلی۔ اس کا بزنس چمک اٹھا اور یہ ارب پتی بن گیا۔ ۱۵ برس بعد اسے خیال آیا کہ اب وطن واپس جانا چاہئے۔ یہ سوچ کر وہ اردن آگیا اور پھر یہیں بزنس کرنے کا ارادہ بنا۔ اس نے "ام اذینة" کے علاقے میں ایک بڑی جگہ خریدی اور اس پہ شاندار بلڈنگ بھی تعمیر کردی۔ پھر یہاں بھی گاڑیوں کا بزنس شروع کردیا اور کچھ عرصے میں ہی اردن بھر میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔ ادھر انس اور اس کی ماں انتہائی کسمپرسی سے رات دن گزارتے رہے۔ ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے انس نے تعلیم حاصل کی اور اب وہ شادی کرکے نوکری بھی کرنے لگ چکا تھا۔ غربت کے باوجود وہ اپنی ماں کا بہت خیال رکھتا۔ مگر بدبخت چچا کو کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا۔ لیکن انس اور اس کی ماں کو سب معلوم تھا کہ وہ حرام خور واپس آچکا ہے۔ ایک دن ماں نے بیٹے سے کہا کہ ہمت کرو، جاؤ اپنے چچا کے پاس اور اس سے اپنے باپ کے مال کا کچھ حصہ مانگو۔ ماں کے کہنے پہ انس چچا کے شو روم میں پہنچ گیا۔ مگر چچا نے کھٹور دلی کا مظاہرہ کرکے اسے بھگا دیا اور کہا کہ آئندہ ادھر کا رخ بھی کیا تو گرفتار کرادوں گا۔ وہ بوجھل قدموں کے ساتھ ماں کے واپس آیا اور ماجرا سارا سنایا۔ بیوہ سوائے بددعا کے کیا کرسکتی تھی۔ اس حرام خور بزنس مین نے اب اردن میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک جنت نما محل تعمیر کر چکا تھا اور اب اس نے بیوی بچوں کو اپنے پاس اردن بلالیا۔ ادھر وہ لوگ امریکا سے روانہ ہوئے اور ادھر یہ بدبخت انہیں لینے کیلئے اپنی نئی ماڈل کی پرتعیش گاڑی لے کر ایئرپورٹ روانہ ہوا۔ جب وہ ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو یہ سب اس نئی گاڑی میں سوار ہوکر اپنے محل کی طرف چل پڑے۔ یہ سارا منظر دیکھ کر فرشتہ اجل ہنس رہا تھا۔ جیسے ہی ان کی گاڑی مین سڑک پہ پہنچی تو ایک تیز رفتار ٹرالر نے اسے روند ڈالا اور انس کا حرام خور چچا اپنی امریکن بیوی اور دونوں بچوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ پیچھے اس کا سوائے انس کے کوئی نہیں تھا۔ یہی اکلوتا وارث۔ اب اس کا محل، شو روم اور بزنس بیٹھے بٹھائے انس کی جھولی میں گر گیا۔ کیسا عجیب معاملہ ہے رب کریم کا۔ اس نے یتیم کے مال کو کئی گنا بڑھا کر اسے لوٹا دیا۔ وہ مظلوم کی دعا ضرور سنتا ہے اگرچہ اس کے ظاہر ہونے میں ۱۵ برس بھی لگ جائیں۔ دوسرا یہ کہ وہ ظالم کو ڈھیل ضرور دیتا ہے۔ لیکن جب پکڑتا ہے تو سامان عبرت بنا کر چھوڑتا ہے۔ تیسرا یہ کہ حرام کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال حرام سے پلنے والے جسم دوزخ کا زیادہ حقدار ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو حرام سے بچائے اور حلال ہی پہ اکتفا کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (عربی سے ترجمہ: ضیاء چترالی) منقول۔