حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ، "ناشطہ" اور ایک بنگالی طالب علم

ڈاکٹر تابش مہدی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں، ہمارے بزرگ دوست مفتی عبدالرٔوف  منصف مبارک پوری مرحوم نے اپنے دور طالب علمی کا ایک واقعہ ایک سے زائد بار سنایا تھا۔ بتایا کہ دارالعلوم دیوبند میں چوں کہ ناشتے کا نظم کبھی نہیں رہا ہے، جو طلبہ ناشتہ کرنا چاہتے ہیں، وہ  اپنے اپنے طور پر ناشتے کا نظم کرتے ہیں اور جن طلبہ کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی وہ صرف دوپہر اور رات کے کھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کے ایک بنگالی ساتھی نے مہتمم صاحب کے نام درخواست لکھی۔ اُس کا مضمون کچھ اس طرح تھا: حضرت ! میں بنگال کا ایک طالب علم ہوں دارالعلوم میں موقوف علیہ میں زیر تعلیم ہوں، دارالعلوم میں ناشتے کا کوئی انتظام نہیں ہے، میری حیثیت ایسی نہیں ہے کہ میں اپنے طور پر صبح کے ناشتے کا نظم کر سکوں، گھر میں رات کی روکھی سوکھی روٹی کھا کر کام چلاتا رہا ہوں، مدرسے میں اچھے نمبر حاصل کرتا رہا ہوں، الحمدللہ دارالعلوم میں بھی میری تعلیمی حالت اچھی ہے، اچھے نمبر لاتا ہوں، ساتھیوں سے مقابلہ رہتا ہے، لیکن دو پہر تک بغیر کچھ کھائے پیے پڑھنا میرے لیے بے حد مشکل ہے، اس کا اثر میری تعلیم پر بھی پڑ سکتا ہے، اگر حضرت والا میرے لیے ناشتے کا کوئی انتظام فرما دیں تو بڑی نوازش ہوگی، تعلیم کی تکمیل بھی ہو جائے گی اور میرے نمبرات میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔“ اس مضمون کی درخواست وہ طالب علم دفتر اہتمام کے منشی کو دے کر آ گیا حضرت مہتمم صاحب تشریف لائے، درخواست دیکھی تو مسکرائے اور کسی چپراسی کے ذریعے سے اُس طالب علم کو بلوایا، وہ آیا اور سلام کر کے کھڑا رہا، حضرت قاری صاحب نے کچھ دیر بعد سر اٹھایا۔ پوچھا: درخواست آپ کی ہے؟ اس نے کہا: جی حضرت! حضرت قاری صاحب نے فرمایا: آپ کی صلاحیت اور استعداد کا عالم یہ ہے کہ آپ ناشتہ "ط" سے لکھتے ہیں "ناشطہ" ۔ لیکن رعایت اتنی بڑی چاہتے ہیں کہ دارالعلوم کے قانون اور ضابطے کے علی الرغم آپ کے ساتھ خصوصی معاملہ کیا جائے، حضرت قاری صاحب کی یہ تنقیدی گفتگو سن کر وہ طالب علم فورا کسی ہچکچاہٹ کے بغیر مخاطب ہوا اور کہا: حضرت! آپ ناشتہ "ت" سے لکھتے ہیں؟ پھر تھوڑے سے توقف کے بعد بولا صحیح لفظ تو "ناشطہ" ہی ہے، یہ نشاط پیدا کرتا ہے، صبح کا یہ ناشطہ، دن بھر انسان کو چاق و چوبند اور پھرتیلا رکھتا ہے، اگر ناشتہ "ت" سے عام ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہئے، قاری صاحب نے خفیف مسکراہٹ کے بعد اسے رخصت کیا اور منشی دفتر سے کہا: منشی جی! اگر چہ دارالعلوم میں ناشتہ کا نظم نہیں ہے، لیکن اس طالب علم کو اس کی حاضر دماغی اور ذہانت کے پیش نظر میرے حساب میں ناشتہ کی بہ قدر رقم ہر ماہ دی جاتی رہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیز دھوپ کا مسافر/ ڈاکٹر تابش مہدی/ ۲۴۷ _____📝📝📝_____ منقول ۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت بلال _ عاشق رسول ﷺ __!!

حضرت بلال _ عاشق رسول ﷺ __!!

حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے پہلی دفعہ حضور نبی کریم ﷺ کو کیسے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکے کے لوگوں کو بہت ہی کم جانتا تھا۔ کیونکہ غلام تھا اور عرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک عام تھا، ان کی استطاعت سے بڑھ کے ان سے کام لیا جاتا تھا تو مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کے لوگوں سے ملوں، لہذا مجھے حضور پاک یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ مجھے سخت بخار نے آ لیا۔ سخت جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ اور بخار نے مجھے کمزور کر کے رکھ دیا، لہذا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا۔ ادھر میرا مالک جو یہ دیکھنے آیا کہ میں جَو پیس رہا ہوں یا نہیں، وہ مجھے لحاف اوڑھ کے لیٹا دیکھ کے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طور پہ میری قمیض بھی اتروا دی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں بیٹھ کے جَو پیس۔ اب سخت سردی، اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام، میں روتا جاتا تھا اور جَو پیستا جاتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی، میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک نہائت متین اور پر نور چہرے والا شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟ جواب میں میں نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو، تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں، یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا۔ قصہ مختصر کہ بلال نے حضور کو کافی سخت جملے کہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ جملے سن کے چل پڑے، جب چل پڑے تو بلال نے کہا کہ بس؟ میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔۔ حضور یہ سن کر بھی چلتے رہے۔ بلال کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا وہ بھی گئی۔ لیکن بلال کو کیا معلوم کہ جس شخص سے اب اسکا واسطہ پڑا ہے وہ رحمت اللعالمین ہے۔ بلال کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور دوسرے میں کھجوریں تھیں۔ اس نے وہ کھجوریں اور دودھ مجھے دیا اور کہا کھاؤ پیو اور جا کے سو جاؤ۔ میں نے کہا تو یہ جَو کون پیسے گا؟ نہ پِیسے تو مالک صبح بہت مارے گا۔ اس نے کہا تم سو جاؤ یہ پسے ہوئے مجھ سے لے لینا۔۔ بلال سو گئے اور حضور نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلام کے لئے چکی پیسی۔ صبح بلال کو پسے ہوئے جو دیے اور چلے گئے۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا، دودھ اور دوا بلال کو دی اور ساری رات چکی پیسی۔۔ ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک کہ بلال ٹھیک نہ ہو گئے۔۔ یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو صحابیءِ رسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے۔آپ نے حضور کے وصال کے بعد اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب اذان میں ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ تک پہنچتے تو حضور کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زار و قطار رونے لگتے تھے۔ ایثار اور اخوت کا یہ جذبہ اتنا طاقتور ہے۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین۔ ____📝📝📝____ منقول ۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔