دیوار پر والد کے ہاتھ کے نشان۔

ابا جی بوڑھے ہو گئے تھے اور چلتے چلتے دیوار کا سہارا لیتے تھے۔ نتیجتاً دیواروں کا رنگ خراب ہونے لگ گیا، جہاں بھی وہ چھوتے تھے وہاں دیواروں پر ان کی انگلیوں کے نشانات چھپ جاتے تھے۔ میری بیوی کو جب پتہ چلا تو وہ اکثر گندی نظر آنے والی دیواروں کے بارے میں مجھ سے شکایت کرتی۔ ایک دن سر میں درد ہو رہا تھا تو *ابا جی نے سر پر تیل کی مالش کی۔ تو چلتے ہوئے دیواروں پر تیل کے داغ بن گئے ۔ یہ دیکھ کر میری بیوی چیخ اٹھی۔ اور میں نے بھی غصے میں اپنے والد کو ڈانٹ دیا اور ان سے بدتمیزی سے بات کی، انہیں مشورہ دیا کہ چلتے وقت دیواروں کو ہاتھ نہ لگائیں۔ وہ بہت غمگین نظر آئے ۔ *مجھے اپنے رویے پر شرمندگی بھی محسوس ہوئی مگر ان سے کچھ نہ کہا۔ ابا جی نے چلتے ہوئے دیوار کو پکڑنا چھوڑ دیا۔ اور ایک دن وہ گر پڑے اور بستر سے جا لگے جو ان کے لئے بستر مرگ بن گیا اور کچھ ہی دنوں میں ہم سے رخصت ہو گئے۔ میں نے اپنے دل میں احساس جرم محسوس کیا اور میں ان کے تاثرات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا تھا اور اس کے فوراً بعد اپنے آپ کو ان کی موت کے لئے خود کو معاف نہیں کر پاتا ہوں۔ کچھ دیر بعد، ہم اپنے گھر کو پینٹ کروانا چاہتے تھے۔ جب پینٹر آئے تو میرا بیٹا، جو اپنے دادا سے پیار کرتا تھا، نے مصوروں کو دادا کے انگلیوں کے نشانات صاف کرنے اور ان علاقوں کو پینٹ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پینٹر بہت اچھے اور جدت پسند تھے۔ انہوں نے اسے یقین دلایا کہ وہ میرے والد کے فنگر پرنٹس/ ہینڈ پرنٹس کو نہیں ہٹائیں گے، بلکہ ان نشانات کے گرد ایک خوبصورت دائرہ بنائیں گے اور ایک منفرد ڈیزائن بنائیں گے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ پرنٹس ہمارے گھر کا حصہ بن گئے* ۔ ہمارے گھر آنے والے ہر فرد نے ہمارے منفرد ڈیزائن کی تعریف کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں بھی بوڑھا ہوتا گیا۔ اب مجھے چلنے کے لیے دیوار کے سہارے کی ضرورت تھی۔ ایک دن چلتے ہوئے مجھے یاد آئے اپنے والد سے میرے کہے ہوئے الفاظ، اور سہارے کے بغیر چلنے کی کوشش کی تاکید ۔ میرے بیٹے نے یہ دیکھا اور فوراً میرے پاس آیا اور چلتے ہوئے مجھے دیواروں کا سہارا لینے کو کہا، اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ میں سہارے کے بغیر گر سکتا ہوں، میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا مجھے پکڑے ہوئے ہے۔ میری پوتی فوراً آگے آئی اور پیار سے میرا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ کر سہارا دیا۔ میں تقریباً خاموشی سے رونے لگا۔ اگر میں نے اپنے والد کے لیے بھی یہی کیا ہوتا تو وہ زیادہ دیرتک صحت مند اور خوش رہتے میری پوتی نے مجھے ساتھ لیا اور صوفے پر بٹھایا۔ پھر اس نے مجھے دکھانے کے لیے اپنی ڈرائنگ بک نکالی۔ اس کی استانی نے اس کی ڈرائنگ کی تعریف کی تھی اور اس کو بہترین ریمارکس دیے تھے۔ خاکہ دیواروں پر میرے والد کے ہاتھ کے نشان کا تھا۔* اس کے ریمارکس تھے- "کاش ہر بچہ بڑوں سے اسی طرح پیار کرے" میں اپنے کمرے میں واپس آیا اور اپنے والد سے معافی مانگتے ہوئے رونے لگا، جو اب نہیں تھے ۔ ہم بھی وقت کے ساتھ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ آئیے اپنے بڑوں کا خیال رکھیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں ۔ اپنے گھر والوں کو بھی بتائیں کہ یہ بزرگ قیمتی ہوتے ہیں دیواریں اور چیزیں نہیں۔ منقول

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

سچ کہو اور باقی رہو

سچ کہو اور باقی رہو

ایک بار ایک بادشاہ جوانوں کے لنگر خانے گیا ، صفائی ستھرائی چیک کی درست تھی، پھر اس نے پوچھا کہ جوانوں کے لیے کیا پکایا ہے ؟جواب ملا بتاؤں یعنی بینگن ۔بادشاہ سخت ناراض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتنا گھٹیا کھانا کیوں پکایا گیا ہے ؟اس کے مشیر نے بینگن کی بُرائی میں زمین آسمان ایک کر دیے ، بہر کیف لنگر کمانڈر نے معذرت کی اور آئندہ سے بینگن نہ پکانے اور اچھا کھانا پکانے کا وعدہ کیا تو بادشاہ لنگر خانے سے رخصت ہو گیا ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد بادشاہ کو دوبارہ سے جوانوں کے لنگر خانے جانے کا اتفاق ہوا۔. سوئے اتفاق اس روز بھی بینگن پکائے گئے تھے۔ بادشاہ نے بینگن کی تعریف کی . وہ ہی مشیر ساتھ تھا ، اس نے بینگن کی تعریف میں ممکنہ سے بھی آگے بینگن کے فوائد بیان کر دیے ۔گویا بینگن کے توڑ کی کوئی سبزی اور پکوان باقی نہ رہے ۔ لنگر کمانڈر خوش ہوا اور آگے سے بینگن کے برابر اور متواتر پکائے جانے کا وعدہ کیا ۔بادشاہ اس مشیر کی جانب مڑا اور کہنے لگا کہ اس دن میں نے بینگن کی بُرائی کی تو تم نے بینگن کی بُرائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، آج جب کہ میں نے تعریف کی ہے تو تم نے بینگن کی تعریف میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، کیوں ؟اس نے جواباً کہا حضور میں آپ کا غلام ہوں بینگن کا نہیں ۔یہ سن کر بادشاہ نے کہا تم جیسے جی حضوریے حق اور سچ کو سامنے نہیں آنے دیتے ، جس کے سبب صاحب اقتدار متکبر ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انصاف نہیں ہو پاتا۔ انصاف کا قتل ہی قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے ۔ پہلے تو وہ جی حضوریہ چپ رہا پھر کہنے لگا حضور جان کی امان پاؤں تو ایک عرض کروں ۔بادشاہ نے کہا : کہو کیا کہنا چاہتے ہو ؟حضور سچ اور حق کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گئے ہیں۔ بادشاہ نے کہا! یاد رکھو سچ اور حق جان سے بڑھ کر قیمتی ہیں۔ مرنا تو ایک روز ہے ہی ، سچ کہتے مرو گے تو باقی رہو گے، ہاں جھوٹ کہنے یا اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن لعنت اور پھٹکار اس زندگی کا مقدر بنی رہے گی ۔